لندن (جیوڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج سے برطانیہ کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ اس دوران ایک طرف ٹرمپ برطانوی سیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے، تو دوسری طرف ان کی مخالفت میں متعدد احتجاجی مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج سے برطانیہ کا دورہ شروع کر رہے ہیں۔ وہ اپنے اس تین روزہ دورے کا آغاز بکنگہم پیلس میں ملکہ ایلزبتھ دوئم سمیت برطانوی شاہی خاندان کے دیگر اراکین کے ساتھ سہ پہر کے وقت عشائیے میں شرکت سے کر رہے ہیں۔ امریکی صدر منگل کے روز برطانیہ کی وزارت عظمی کے عہدے سے عنقریب سبکدوش ہونے والی ٹیریزا مے سے ملاقات کریں گے جبکہ اپنے اس سرکاری دورے کے آخری دن یعنی بدھ کو وہ جنوبی شہر پورٹس ماتھ میں دوسری عالمی جنگ کے دوران ‘ڈی ڈے کی یادگاری تقریت میں شرکت کریں گے۔ سن 1944 میں تقریبا 160,000 برطانوی، امریکی، فرانسیسی اور دیگر ملکوں کی افواج اس وقت جرمنی کے زیر قبضہ نارمنڈی کے علاقے میں اتری تھیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ پیش رفت کافی اہمیت کی حامل ثابت ہوئی تھی۔
امریکی صدر نے آمد سے قبل ہی برطانیہ کی کنزرویٹوو پارٹی کو درپیش بحران اور بریگزٹ پر بیان بازی شروع کر دی تھی۔ موجودہ وزیر اعظم ٹیریزا مے اس ہفتے جمعے کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والی ہیں۔ ٹرمپ نے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے حوالے سے مے کی حکمت عملی کو بالخصوص تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ اگلے وزیر اعظم کے لیے بریگزٹ پر سخت گیر موقف کے حامل بورس جانسن کی حمایت کا اظہار کر چکے ہیں اور یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ نائجل فیرج کو یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کے لیے برسلز بھیجا جائے۔ اس وقت ‘بریگزٹ پارٹی کے سربراہ فیرج وہی برطانوی سیاستدان ہیں، جنہوں نے بڑے زور و شور سے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے لیے اس بارے میں کرائے گئے ریفرنڈم سے قبل مہم چلائی تھی۔
امریکی صدر کے دورے کے موقع پر دارالحکومت لندن میں کئی احنتجاجی مظاہرے بھی منعقد کیے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کے کئی سیاستدان امریکی صدر کے ساتھ کئی سرکاری سرگرمیوں و ملاقاتوں کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ لندن کے میئر صادق خان نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں ٹرمپ کے رویے اور اقدامات و ‘تقسیم کا سبب قرار دیا۔
امریکا اور برطانیہ کے تعلقات گو کہ عرصہ دراز سے کافی مضبوط رہے ہیں اور یہ اب بھی پختہ ہیں تاہم موسمیاتی تبدیلیوں، چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور ایرانی تنازعے جیسے امور پر دونوں ملکوں کی حکمت عملی ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔