امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدارتی انتخابات میں عموماﹰ اگر کسی ایک امیدوار کو واضح برتری حاصل ہو جائے، تو نتائج کا اعلان ایک ہی دن کے اندر اندر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس بار نتائج کے اعلان میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
امریکا میں بیشتر ووٹوں کی گنتی مشین کے ذریعے ہوتی ہے۔ تاہم جہاں کہیں کسی مشین میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے، وہاں پولنگ اسٹاف خود بیلٹ پیپر گنتا ہے۔ پولنگ کے بعد نتائج الیکشن حکام کے مقامی یا علاقائی ہیڈکوارٹر بھیج دیے جاتے ہیں۔
پولنگ ختم ہونے کے بعد جن ریاستوں کے نتائج ہار جیت کا تعین کر سکتے ہیں، ان میں سب سے پہلے ریاست جارجیا کا نتیجہ اہم ہو گا۔ اس کے بعد شمالی کیرولائنا کا نتیجہ آ سکتا ہے۔ پھر اوہائیو، فلوریڈا، ٹیکساس اور ایریزونا کی باری آئے گی۔
امریکی صدارتی انتخابات میں ریاست اوہائیو کے نتیجے کی زبردست اہمیت رہی ہے اور عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو امیدوار اوہائیو میں جیتے، وہ گویا پورا میدان مار لیتا ہے۔
لیکن اس بار جن غیر معمولی حالات میں یہ انتخابات ہو رہے ہیں، خدشہ ہے کہ اوہائیو سمیت کئی اہم ریاستوں سے نتائج آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث اس الیکشن میں شہریوں کی بڑی تعداد نے پولنگ اسٹیشن جانے کے بجائے پہلے ہی ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ دے دیا۔
پچھلی مرتبہ کے مقابلے میں اس بار ڈاک کے ذریعے یا بذات خود الیکشن سے پہلے جا کر ووٹ دینے والوں کی تعداد دوگنا ہو گئی۔
سن دوہزار سولہ میں الیکشن سے پہلے سینتالیس ملین امریکی ووٹروں نے اس طرح اپنا ووٹ دیا تھا۔ اس بار ایسے ووٹرز کی تعداد لگ بھگ سو ملین کی حد کو چھونے لگی تھی۔
خیال ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹر پوسٹل بیلٹ کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ریپبلکن ووٹر زیادہ تر الیکشن کے دن ووٹ دینے کے لیے باہر نکلتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ امریکا میں پوسٹل بیلٹ کے نظام پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس نظام میں کئی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں جو انتخابی دھاندلی کا سبب بنتی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر انہیں دھاندلی کے ذریعے ہرانے کی کوشش کی گئی تو وہ نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔
اگر الیکشن متنازعہ ہو گئے تو معاملہ امریکی سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے۔ امریکا میں ایسا پہلی بار نہیں ہو گا۔ سن دو ہزار کے الیکشن میں بھی ڈیموکریٹ امیدوار ایل گور اور ریپبلکن پارٹی کے جارج بش کے درمیان ریاست فلوریڈا کے چند سو ووٹوں کا تنازعہ سپریم کورٹ تک گیا تھا اور کوئی ایک ماہ کے تعطل کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ جارج بش کے حق میں دیا تھا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ قوی امکان ہے کہ اس بار بھی ابتدائی نتائج اصل صورتحال کی عکاسی نہ کریں اور صورتحال واضح ہونے میں کئی روز لگ سکتے ہیں۔
ڈاک کے ذریعے بھیجے جانے والے ووٹوں کی تصدیق میں وقت لگتا ہے۔ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے جتنے زیادہ ووٹ موصول ہوئے، ان میں وقت بھی اتنا زیادہ لگے گا۔
فلوریڈا اور اوہائیو جیسی امریکی ریاستوں میں ان ووٹوں کی گنتی الیکشن سے کافی پہلے کر لینے کی اجازت ہے۔ اس لیے وہاں اس وجہ سے نتائج کی تاخیر کا امکان نہیں۔
لیکن بعض دیگر ریاستوں میں پولنگ کے دن تک پوسٹل بیلٹ کی گنتی کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان میں پینسلوانیا اور وسکانسن جیسی اہم ریاستیں شامل ہیں، جن کے نتائج مجموعی ہار جیت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اسی طرح بعض امریکی ریاستوں میں الیکشن کے بعد بھی ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے، شرط یہ کہ یہ ووٹ تین نومبر سے پہلے بھیجے گئے ہوں۔ کانٹے دار مقابلے کی صورت میں ان ووٹوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، جنہیں گننے میں وقت لگ سکتا ہو۔