پینسلوانیا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدارتی الیکشن میں بہت کانٹے دار مقابلے کے بعد ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کو صدر بننے کے لیے کافی سے زیادہ الیکٹورل ووٹ مل گئے ہیں۔ ان کے ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ نے تاہم اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ہفتہ سات نومبر کی شام امریکی میڈیا نے بتایا کہ سابق نائب صدر اور ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے بہت کانٹے دار مقابلے کے بعد بالآخر اپنے ریبپلکن حریف امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے دی ہے۔ امریکا میں تین نومبر کو ہوئے الیکشن کے نتائج دیکھتے ہوئے اب تک یہ امکان تو کافی زیادہ تھا کہ بائیڈن یہ الیکشن جیت جائیں گے تاہم وہ عالمی وقت کے مطابق ہفتے کی شام تک اصولی طور پر یہ الیکشن اس لیے نہیں جیت سکے تھے کہ انہیں صدر بننے کے لیے لازمی طور پر درکار کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ حاصل نہیں ہوئے تھے۔
نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق یہ صورت حال قطعی طور پر اس وقت لیکن حسب توقع جو بائیڈن کے حق میں بدل گئی، جب انہیں ریاست پینسلوانیا میں بھی فتح حاصل ہو گئی۔ اس طرح اب بائیڈن کا حتمی نتائج میں بھی صدر منتخب ہونا یقینی ہو گیا ہے۔ اسی لیے عالمی میڈیا نے اپنی رپورٹوں میں یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ‘جو بائیڈن نئے امریکی صدر منتخب ہو گئے ہیں‘۔
پینسلوانیا اور نیواڈا کی ریاستوں سے ملنے والے غیر حتمی ریاستی نتائج کے بعد بائیڈن کو حاصل ہونے والے صدارتی الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی تعداد اب 290 ہو گئی ہے جبکہ صدر ٹرمپ کو ملنے والے الیکٹورل ووٹ اب بھی 214 بنتے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ الیکٹورل ووٹوں کے اس فرق کو پورا کرتے ہوئے یہ الیکشن جیت سکیں۔ اس کے باوجود پینسلوانیا کے اسٹیٹ الیکشن رزلٹ سامنے آنے کے بعد موجودہ صدر اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ جو بائیڈن کی انتخابی کامیابی کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ الیکشن اور انتخابی معرکہ ابھی ختم نہیں ہوئے۔ صدر ٹرمپ نے کہا، ”یہ الیکشن ابھی ختم تو نہیں ہوا۔‘‘
امریکی صدارتی الیکشن میں ووٹنگ کے چار روز بعد 290 الیکٹورل ووٹ حاصل کر لینے اور اپنی انتخابی فتح کا یقین ہو جانے کے بعد ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن نے کہا کہ ان کے لیے یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ انہوں نے یہ الیکشن جیت لیا ہے۔
بائیڈن نے، جن کی عمر 77 برس ہے، کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انتخابی مہم کی تلخیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے غصہ اور جذباتی بیان بازی ختم کی جائے اور تمام امریکی دوبارہ ایک متحد قوم بن کر اپنی داخلی سیاسی تقسیم پر قابو پائیں اور آگے بڑھنے کا سوچیں۔