امریکی صدارتی انتخاب 2020: صدارتی استثنیٰ کے خاتمے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو کن مقدمات کا سامنا ہو گا؟

Trump

Trump

واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر کو دوران صدارت ہر قسم کے مقدمات خواہ وہ فوجداری نوعیت کے ہوں یا دیوانی ، استثنیٰ حاصل ہوتی ہے۔

صدر ٹرمپ انتخابات 2020 کے صدارتی انتخابات میں ہار نے کے بعد بہت جلد ایک بار پھر عام شہر ی بن جائیں گے۔

اس کا مطلب ہے وہ ان کو مقدمات کے استثنیٰ کے حوالے سے تمام مراعات جو بطور صدر حاصل تھیں ، ختم ہو جائیں گے اور ان کے مقدمات دوبارہ کھل سکتے ہیں جن کے لیے انھیں خود ہی وکلا اور استغاثہ سے نمٹنا پڑے گا۔

امریکہ میں وفاق اور نیو یارک کے سابق پراسیکیوٹر ڈینیئل الانسو کہتے ہیں کہ ‘صدرات ختم ہونے کے بعد ماحول بدل جائے گا۔‘

اب ان کے پاس تحقیقات کو روکوانے کی صدارتی طاقت نہیں ہو گی۔

ٹرمپ اور ان کی ریئل اسٹیٹ کمپنی دی ٹرمپ آرگنائزیشن کے لیے سب سے خطرناک چیز یہ ہوگی اگر ان کے خلاف نیو یارک میں وسیع پیمانے پر جرائم کی تحقیقات شروع ہو جائیں۔

ان کے خلاف پہلے سے کئی مقدمات درج ہیں جن میں خاندان کے کسی فرد یا ملازم پر بدعنوانی سے لے کر جنسی ہراسانی کے الزامات لگے ہوئے ہیں۔

ایک قانونی طوفان پیدا ہو رہا ہے۔ ہم یہاں ان سے متعلق چھ اہم قانونی معاملات پر نظر دوڑاتے ہیں۔

پورن سٹار سٹرامی ڈینیل نے کہا تھا کہ انھوں نے 2006 میں ڈونلڈ ٹرمپ سے جنسی تعلق قائم کیا تھا

ہمیں یہ معلوم ہے کہ ان مقدمات میں بالغوں کے لیے شائع ہونے والے معروف ميگزین پلے بوائے کی ماڈل کیرن میکڈوگل اور پورن سٹار سٹورمی ڈینیئل کے ساتھ کسی ’سازش کے تحت خاموشی‘ کے دعوے ہوتے رہے ہیں۔

ان الزامات کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں خواتین کا کہنا تھا کہ ان کے ٹرمپ کے ساتھ جنسی تعلقات تھے اور 2016 کے صدارتی انتخاب سے قبل دونوں کو چُپ رہنے کے لیے پیسے دیے گئے تھے۔

کیرن میکڈوگل نے میلانیا ٹرمپ سے اس کے خاوند کے ساتھ تعلقات رکھنے پر معافی طلب کی تھی

جب دونوں خواتین نے 2018 میں خاموشی توڑی تو یہ ٹرمپ کی صدارت کے لیے سیاسی چیلنج ثابت ہوا اور ان کے خلاف جرائم سے متعلق دو تحقیقات شروع ہوگئیں۔

پہلی تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ آیا کسی وفاقی قانون کی خلاف ورزی ہوئی تھی اور اس دوران ٹرمپ کے سابق ذاتی وکیل مائیکل کوہن کا کیا کردار تھا۔

تحقیقات کے دوران مائیکل کوہن نے تسلیم کیا تھا کہ انھوں نے دونوں خواتین کو پیسوں کی ادائیگی کے لیے تیار کیا تھا۔ ان ادائیگیوں کو انتخابی مہم کے قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا اور مائیکل کوہن کو 2018 میں تین برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

مائیکل کوہن نے تسلیم کیا تھا کہ انھوں نے دونوں خواتین کو خاموش رہنے کے لیے رقم ادا کی تھی

مائیکل کوہن نے ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے رقم ادا کرنے کا ‘حکم’ دیا تھا لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

ٹرمپ پر فردِ جُرم عائد کرنے کے لیے استغاثہ کو ثابت کرنا ہوگا کہ ٹرمپ نے واقعی مائیکل کوہن کو ان رقوم کی ادائیگیوں کا حکم دیا تھا۔ قانون کے ماہرین کے مطابق اگر ٹرمپ پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے کافی شواہد حاصل ہو جائیں تب بھی یہ امریکی حکومتی پالیسی کے خلاف ہے کہ ایک موجودہ صدر پر فرد جرم عائد ہو۔

اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مقدمہ ختم ہو گیا۔ بات اس سے زیادہ پیجیدہ ہے۔

آسان لفظوں میں یہ کہ نیو یارک میں ان ادائیگیوں سے متعلق دوسری تحقیقات جاری ہے۔

مینہٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی سائرس وانس جنرل ٹرمپ آرگنائزیشن کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں

مینہیٹن کے ضلعی اٹارنی سائرس وانس اس کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا ٹرمپ کی کمپنی نے ان ادائیگیوں سے متعلق اپنے کاروباری ریکارڈ میں رد و بدل کی۔

ہمیں یہ معلوم نہیں کہ سائرس وانس کے پاس فرد جرم عائد کرنے کے لیے کوئی ثبوت ہے یا نہیں۔ بات اسی پر منحصر ہے۔

کاروباری ریکارڈ میں رد و بدل نیو یارک کے قوانین میں چھوٹا جرم ہے۔ یہ ثابت ہونے پر ایک سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق اس پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے دو سال کی مدت ہوتی ہے اور اب دو سال گزرنے پر استغاثہ کے پاس جرم ثابت کرنے کے امکانات کم ہیں۔

ان مقدمات میں سے اور بھی راستے نکلتے ہیں۔

نیو یارک میں کاروباری ریکارڈ میں رد و بدل اس وقت ایک سنگین جرم میں بدل جاتا ہے جب اسے کسی دوسرے جُرم سے جوڑا جائے، جیسا کہ ٹیکس فراڈ۔

سنگین جرائم کے مقدمات کو لمبے عرصے بعد بھی چلایا جا سکتا ہے اور ان میں مجرم قرار پانے والے کو لمبی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ کے خلاف انتخابی مہم کی فنڈنگ کے قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمہ بن سکتا ہے۔ اسی قانون کے تحت صدر ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن کو 2018 میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

جہاں سائرس وانس کی تحقیقات سے جڑی دوسری تحقیقات کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔

ٹیکس اور بینک فراڈ تحقیقات
ٹرمپ آرگنائزیشن کے ایک وکیل نے 2019 میں وانس انکوائری کے حوالے سے کہا تھا کہ اس تحقیق کا مقصد کسی کو سیاسی نقصان پہنچانا مقصود ہے۔

ٹرمپ آرگنائزیش کے وکیل کے اس بیان سے غصہ جھلک رہا ہے۔

یہ بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب وانس نے دستاویزات کی درخواست جسے سپینا کہا جاتا ہے، جاری کی تھی۔

وہ صدر ٹرمپ اور ٹرمپ آرگنائزیشن کا آٹھ سال کا فنانشل ریکارڈ دیکھنا چاہتے تھے۔

صدر ٹرمپ نے دستاویزات کی درخواست کو روک دیا تھا اور اپنے اوپر ٹیکس چوری کے الزامات کو فیک نیوز یا جعلی خبریں کہہ کر رد کر دیا تھا۔ انھوں نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ یہ انھیں ہراساں کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

گذشتہ برس ایک وفاقی جج نے صدر ٹرمپ کے موقف کو تسلیم نہیں کیا اور پراسیکیوٹرز کے لیے ان دستاویزات تک رسائی کو قدرے آسان بنا دیا تھا۔

سائرس وانس نے عدالتوں میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ادا کیے گئے ٹیکس کی معلومات کو اپنی تحقیقات کے لیے اہم قرار دیا تھا۔

نیویارک میں ٹیکس فراڈ کی کئی قسمیں سنگین جرائم کے زمرے میں آتی ہیں اور ان پر لمبی قید کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔

صدر ٹرمپ کو اپنے ٹیکس کے گواشوراوں کے حوالے سے وفاقی جج کے فیصلے کو ختم کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہو گا جہاں حتمی فیصلے کا امکان ہے۔

صدر ٹرمپ کے لیے اس میں بہت خطرات ہیں۔

جارج واشنٹگن یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں پروفیسر جوناتھن ٹرلی نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹیکس اور بینک فراڈ کی تحقیقات صدر ٹرمپ کے لیے بہت اہمیت کی حاصل ہیں لیکن کیا صدر ٹرمپ کے خلاف کوئی فوجداری مقدمہ بن سکتا ہے ، یہ ابھی تک واضح نہیں۔‘

سائرس وانس کے لیے صدر ٹرمپ کے ٹیکس کے گوشواروں تک رسائی ان کی تحقیقات کو آگے بڑھانے کے لیے اہم ہے اور ان ریکارڈز تک رسائی کے بعد معلوم ہو پائے گا کہ صدر ٹرمپ کے خلاف کوئی مقدمہ بنتا ہے یا نہیں۔

نیو یارک کی اٹارنی جنرل لتیتیا جیمز صدر ٹرمپ کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں۔

ریئل اسٹیٹ کے ممکنہ فراڈ کے حوالے ہم جانتے ہیں کہ نیو یارک کی اٹارنی جنرل لتیتیا جیمز صدر ٹرمپ کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں۔

نیویارک کی اٹارنی جنرل مارچ 2019 سے یہ تحقیق کر رہی ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اپنے جائیداد کی مالیت کے حوالے سے کوئی غلط بیانی تو نہیں کی؟

اس تحقیق کے تانے بانے بھی صدر ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن کے اس بیان سے جا کر ملتے ہیں جو انھوں نے فروری 2019 میں کانگریس کے سامنے دیا تھا۔ انھوں نے کانگریس کو بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ قرضوں کے حصول کے لیے اپنی جائیدادوں کی قیمت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے جبکہ ٹیکس بچانے کی غرض سے حکام کو ان کی مالیت کو کم کر کے بتاتے تھے.

مائیکل کوہن نے تسلیم کیا تھا کہ انھوں نے دونوں خواتین کو خاموش رہنے کے لیے رقم ادا کی تھی

مائیکل کوہن کی کانگریس کے سامنے گواہی نیویارک اٹارنی جنرل کی طرف سے صدر ٹرمپ کی پراپرٹی کے حوالے سے تحقیقات کا سبب بنی۔

صدر ٹرمپ کے بیٹے ایرک ٹرمپ نے جو ٹرمپ آرگنائزیشن کے نائب صدر ہیں، الزام عائد کیا تھا کہ ان کاروبار کے بارے میں ساری کارروائیاں سیاسی عداوت کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے نیویارک اٹارنی جنرل کی طرف سے دفتر میں حاضر ہو کر اپنا بیان دینے کے حکم کی تعمیل کی تھی۔

آگے کیا ہو سکتا ہے ؟
سابق وفاقی پراسیکیوٹر الانسو کہتے ہیں اگر مقدمے کا ایک فریق سابق صدر ہو تو بہت سی عدالتیں اس مقدمے پر بہت توجہ دیتی ہیں، لیکن اگر فریق پرائیوٹ شہری ہوں تو عموماً ایسا نہیں ہوتا۔

ایسے سول مقدمات میں اگر فراڈ کے شہادتیں مل جائیں تو عدالتیں جرمانے عائد کرتی ہیں

دورانِ صدارت مالی فوائد کے مقدمات

صدر ٹرمپ پر ایسے الزامات لگتے رہے ہیں کہ انھوں نے بطور صدر اپنے آپ کو مالی فوائد پہنچائے ہیں۔

امریکی قوانین کے تحت صدر سمیت کسی بھی وفاقی عہدیدار کو دوسرے ملک سے کسی مالی فائدے کو قبول کرنے سے پہلے کانگریس سے اجازت لینا لازمی ہے۔

تین ایسے مقدمات دائر کیے گئے ہیں جن میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کانگریس کی اجازت کے بغیر غیر ممالک سے فوائد حاصل کیے۔ اس کی ایک مثال واشنگٹن ڈی سی میں ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل میں غیر ملکی اہلکاروں کو ٹھرانے سے متعلق ہے۔

صدر ٹرمپ نے ان الزامات کو بیہودہ کہہ کر مسترد کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں معلوم ہے کہ ماضی میں امریکی صدور اپنے دور میں دولت کماتے رہے ہیں۔

ان مقدمات میں کیا ہو سکتاہے؟
قانونی ماہرین کاکہنا ہے کہ زیادہ امکان ہے کہ عدالتیں مالی فوائد کے حوالے سے دائر مقدمات کو ختم کر دیں گی اور ایک معاملے میں تو سپریم کورٹ پہلے ہی ایسا حکم سنا چکی ہے۔

جنسی ہراسانی کی شکایات

صدر ٹرمپ پر جنسی کجروی کے حوالے سے بہت سے الزامات اور مقدمات ہیں جن میں ان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ صدر ٹرمپ ایسے تمام الزامات کو فیک نیوز کہہ کر رد کرتے ہیں۔

جب 2016 میں صدر ٹرمپ صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں شریک ہوئے تو بہت سی عورتوں نے آگے بڑھ کر ان پر الزامات عائد کیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ان الزامات کو بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی الزامات کہہ کر رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ الزام عائد کرنے والی عورتوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے لیکن آج تک انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

بلکہ کئی عورتوں نے ان کے خلاف مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔

جن عورتوں نے صدر ٹرمپ کے خلاف مقدمات دائر کر رکھے میں ان میں ایک صحافی جین کیرول ہیں جنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انھیں 1990 میں مینہٹن ایک سٹور کے ڈریسنگ روم میں ریپ کیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ الزام یہ کہہ کر مسترد کر دیا :’ کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ وہ ایسی نہیں ہیں جیسی (عورتیں) مجھے پسند ہیں۔’ انھوں نے صدر ٹرمپ کے اس بیان کو بنیاد بنا کر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ جین کیرول نے اپنے مقدمے میں ہرجانے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف اپنے بیان کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

جین کیرول نے صدر ٹرمپ پر انھیں مینہٹن ایک سٹور میں ریپ کرنے کا الزام عائد کیا تھا

اس مقدمے نے اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب امریکی محکمہ انصاف بھی اس مقدمے میں کود پڑا اور مقدمے میں ٹرمپ کی جگہ امریکہ کو مدعی بنانے کی کوشش کی۔

ایک وفاقی جج نے امریکی محکمہ انصاف کی اس درخواست کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اس مقدمے کا امریکہ کے سرکاری کاموں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

اس مقدمے میں کیا ہو سکتا ہے؟
جب ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس سے نکلیں گے تو یہ مقدمہ آگے بڑھے گا اور جین کیرول کے وکلا اس میں شہادتیں اکٹھی کر سکیں گے۔

وہ صدر ٹرمپ کے ڈی این اے کا مطالبہ کر سکتے ہیں تاکہ اسے جین کیرول کے ان کپڑوں سے ملنے والے ڈی این اے سے موازنہ کر سکیں جو انھوں نے اس وقت پہن رکھے تھے جب انھیں مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسی نوعیت کا ایک اور لیکن علیحدہ مقدمہ سمر زرواس نامی عورت نے بھی دائر کر رکھا ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیلیوژن شو ‘ دی اپرینٹس’ میں بھی شریک ہوئی تھیں۔

مس سمر زرواس کا الزام ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت ان پر جنسی حملہ کیا جب وہ 2007 میں بیورلے ہل ہوٹل میں ان سے ملازمت کے مواقعوں کے حوالے سے ملاقات کر رہی تھیں۔

سمر زرواس نے صدر ٹرمپ پر اس وقت جنسی حملہ کرنے کا الزام عائد کیا جب وہ بقول ان کے پاس ملازمت کے مواقعوں کے بارے میں بات کرنے گئی تھیں

ڈونلڈ ٹرمپ اس الزام کو جھوٹا کہہ کر مسترد کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے مس زرواس شہرت حاصل کرنے کے لیے ایسا الزام عائد کر رہی ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں اس مقدمے کو خارج کروانے کی کوشش کی۔ ان کے وکلا نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے موکل کو استثنیٰ حاصل ہے۔ لیکن یہ دلیل 20 جنوری 2021 کو ناکارہ ہو جائے گی جب وہ صدرِ امریکہ سے ایک عام شہری میں بدل جائیں گے۔

قانونی ماہر باربرا میککواڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب صدر کے استثنیٰ کی مدت ختم ہو جائے گی تو شہادتیں اکٹھی کرنے کا مرحلہ شروع ہو گا اور پھر معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘

صدر ٹرمپ کی بھیتجی میری ٹرمپ نے بھی اپنے چچا ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے

میری ٹرمپ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھتیجی ہیں اور انھوں نے حال میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے اپنے چچا پر مختلف الزامات عائد کیے ہیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کے ایک مقدمہ بھی دائر کر رکھا ہے جس انھوں نے الزام عائد کہ جب ان کے والد کی وفات ہو گئی تو ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے بھائیوں نے خاندانی کاروبار میں ان کے حصے کو ہتھیا لیا تھا۔

ان کے مقدمے کی ابتدائی لائن ہی نفرت سے بھرپور ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’فراڈ صرف خاندانی کاروبار ہی نہیں بلکہ ان کا انداز زندگی ہے۔‘

ان کی کتاب میں صدر ٹرمپ سے نفرت جھلکتی ہے۔ وہ اپنے چچا کو ایسا نرگیست پسند شخص گردانتی ہیں جو دنیا کا سب سے خطرناک آدمی ہے۔

اپنے مقدمے میں وہ لکھتی ہیں کہ جب ان کے والد فریڈ ٹرمپ جونیئر 1981 میں بیالیس برس کی عمر میں وفات پا گئے تو ان کے چچا خاندانی کاروبار میں ان کے مفادات کے محافظ تھے کیونکہ وہ ابھی سولہ برس کی تھیں۔ لیکن چچا نے اپنے بھائیوں سے ملکر کر جھوٹ اور فراڈ کے ذریعے ان کے مالی مفادات کو نقصان پہنچایا۔ انھوں نے اپنے مقدمے میں پانچ لاکھ امریکی ڈالر کے ہرجانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس مقدمے میں کیا ہو سکتاہے؟

جب یہ کتاب شائع ہوئی تو وائٹ ہاؤس نے اسے جھوٹ کا پلندہ کہہ کر رد کیا لیکن صدر ٹرمپ نے ابھی تک مقدمے میں اپنا جواب داخل نہیں کیا ہے۔

اب اگر دستاویزات کی درخواست آتی ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی استثنیٰ کا سہارا نہیں لے سکیں گے۔

کوئی امریکی شہری بشمول صدرِ امریکہ قانون سے بالا تر نہیں ہے۔