امریکی صدارتی انتخابات اور تہران اور واشنگٹن کے تعلقات

Donald Trump Meeting

Donald Trump Meeting

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) چار برس قبل اُس وقت کے امریکی صدارتی الیکشن کے نامزد ہونے والے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر منتخب ہو گئے تو ایران حکومت کے جوہری معاہدے کو ترک کر دیں گے اور ایک بہتر ڈیل کو عمل میں لائیں گے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے حریف جو بائیڈن کے برعکس ایران کو مسلسل آنکھیں دکھاتے رہتے ہیں۔ ابھی جب کہ امریکی صدارتی انتخابات بہت نزدیک ہیں مبصرین اس امکان کو رد نہیں کر رہے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو وہ تہران حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ یا دو طرفہ مذاکرات کر سکتے ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے پیر کو ایک معروف امریکی تھنک ٹینک’ کونسل آف فورن ریلیشنس‘ سی ایف آر کے زیر اہتمام ایک ورچوئل کانفرنس میں شرکت کی۔ جواد ظریف کے لیے یہ ایک اچھا موقع تھا امریکی عوام پر چند بنیادی نوعیت کے عوامل پر روشنی ڈالنے کی۔ خاص طور سے اس امر کو اجاگر کرنے کا کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران سے متعلق پالیسی کو کس حد تک گمراہ کرنے والی پالیسی سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ایرانی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ظریف نے اقوام متحدہ کی ایران کے خلاف از سر نو پابندیوں کے اعلان کو نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل محض پروپگینڈا قرار دیا تھا۔ امریکا نے ان پابندیوں کی پشت پناہی کی ہے۔

چار برس قبل اُس وقت کے امریکی صدارتی الیکشن کے لیے نامزد ہونے والے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر منتخب ہو گئے تو وہ تہران حکومت کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کو ترک کر دیں گے اور اس کی جگہ ایک بہتر ڈیل کو عمل میں لائیں گے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے وعدے کے تحت 2018 ء میں ہی جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کردیا تاہم اپنے دوسرے وعدے یعنی اس معاہدے کی جگہ ایک بہتر معاہدہ طے کرنے میں اب تک ناکام رہے ۔

ٹرمپ کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ دوبارہ منتخب ہو گئے تو ان کی خارجہ پالیسی پہلے سے مختلف نہیں ہوگی۔

ایران پر لگی اقوام متحدہ کی پابندیوں کے خاتمے کے لیے واشنگٹن حکومت نے نام نہاد ‘اسنیپ بیک میکینیزم‘ کو متحرک کیا، جس کے تحت تقریباً ان تمام پابندیوں کو دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا جنہیں ماضی میں اٹھا لیا گیا تھا۔ حالیہ ویک اینڈ پر امریکی سکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے زور دیا کہ تنازعات کے حل کی 30 دن کی مدت گزر چُکی ہے اب ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں جو پہلے ایٹمی معاہدے کے حصے کے طور پر ہٹا لی گئی تھیں وہ دوبارہ سے نافذ العمل ہو گئی ہیں۔ ساتھ ہی امریکا نے اقوام متحدہ کے ان ممبر ممالک کو نتائج سے خبر دار کرتے ہوئے دھمکی دی جو واشنگٹن کی ایران پر از سر نو پابندیوں کا احترام نہیں کر رہے۔ دریں اثناء ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں شریک ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے امریکا کے ایران پر پابندیوں کے دوبارہ عائد کرنے کے مطالبے کو رد کر دیا ہے۔

دریں اثناء اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری انتونیو گوٹیرش نے کہا کہ غیر یقینی کی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے، وہ کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ سلامتی کونسل کے 15 اراکین میں سے 13 نے شکوک کا اظہار کیا ہے کہ امریکا کو یکطرفہ طور پر اقوام متحدہ کے ”اسنیپ بیک‘‘ طریقہ کار کو متحرک کرنے کا اختیار ہے ، کیونکہ وہ دو سال قبل ایٹمی معاہدے سے دستبردار ہو چکا تھا۔

جو بائیڈن ایران کے ساتھ سفارتی مذاکرات کے حق میں ہیں۔

امریکی صدارتی انتخاب کے امیدوار اور ڈیمو کریٹک لیڈر جو بائیڈن چاہتے ہیں کہ ان کا ملک ایران کے جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو اپنے ایک انتخابی بیان میں بائیڈن نے کہا تھا،”اگر میں صدر منتخب ہو گیا تو میں ایران کے جوہری معاہدے میں امریکا کی دوبارہ شمولیت کو ممکن بناؤں گا، بشرطیکہ ایران معاہدے کی تمام شرائط کا احترام کرے۔‘‘ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ایک سینیئر تجزیہ کار نیسان رفعتی اس بارے میں کہتے ہیں،”ایران اس صورتحال میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کرے گا کہ آیا اُس پر لگی اقتصادی پابندیاں واقعی ختم کی جائیں گی اور اگر ایسا ہوا تو اس کی کیا صورت ہوگی۔‘‘

امریکی صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کی کامیابی کی صورت میں ایرانی حکومت کے پاس محض چند مہینے ہوں گے خود پر لگی پابندیوں کو ہٹانے سے متعلق شرائط کو پورا کرنے کے لیے کیونکہ موجودہ ایرانی صدر دو صدارتی مدتیں پوری کرنے کے بعد آئندہ برس صدارتی عہدے سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔ جون 2021 ء میں ایرانی عوام ایک نیا لیڈر منتخب کرے گی۔ آئندہ سال کے ان انتخابات میں ‘وٹرز ٹرن آؤٹ‘ یعنی ڈالے گئے ووٹوں کی متوقع کم تعداد کی صورت میں ایران کا سخت گیر مقف رکھنے والا کوئی سیاستدان صدارتی منصب سنبھال لے گا۔

امریکا کے صدارتی الیکشن میں اگر ٹرمپ کے حریف بائیڈن کامیابی حاصل کرتے ہوئے صدر منتخب ہو گئے تو وہ ایران کے صدارتی انتخابات تک انتظار کر سکتے ہیں۔ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات کا یقین ہے کہ ان کا ایران کے ساتھ سخت طرز عمل موثر ہے اور یہ کہ اگر وہ الیکشن میں دوبارہ کامیاب ہو گئے تو ایران مذاکرات کی میز پر واپس آ جائے گا۔ امریکا کے ‘جرمن مارشل پلان‘ سے منسلک ایک ایرانی نژاد ماہر آریان تباتباعی کا خیال ہے کہ ٹرمپ وہی گیم کھیلیں گے جو انہوں نے جمہوریہ کوریا کے ساتھ کھیلا تھا۔ اس کا مطلب ہو گا،” کم سے کم یورپی شمولیت۔‘‘ خاتون ماہر تباتباعی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ یکطرفہ طور پر آگے بڑھنے کے لیے رضا مندی کا اظہار کر چُکے ہیں۔

تباتباعی مشرق وسطیٰ کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پس منظر میں ایک ممکنہ ‘نئی ڈیل‘ کی توقع کر رہی ہیں۔” ہم دیکھ رہے ہیں کہ خطے میں اسرائیلی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں، اسرائیل ایران کے خلاف شام اورعراق میں اپنی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے اور یہ ایران میں کسی بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ ممکنہ طور پر جوہری ڈیل کے خاتمے کا سبب بنے گا یا کم از کم ایران کی طرف سے جوہری پروگرام کی روک تھام دیکھنے میں آسکتی ہے۔‘‘

ایران کے سخت گیر موقف رکھنے والے لیڈروں کو ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ خامنہ ای نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کر چُکے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ان مذاکرات کا فائدہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہوگا۔ خامنہ ای ایک سخت گیر ایرانی صدر کو غالباً امریکا کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دیں گے۔ اس طرح وہ ناراض ایرانیوں کی حمایت بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور ملک کے سیاسی نظام کو مضبوط تر بنانے کی کوشش بھی کریں گے۔ اگست میں ایران کے سابقہ ڈپٹی اسپیکر علی مطہری نے سرکاری نیوز ایجنسی ارنا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا،”موجودہ صورتحال میں پارلیمان اور منصب صدارت کا سخت گیر موقف کے حامل سیاستدانوں کے کنٹرول میں رہنا ہی ایران کے حق میں ہوگا۔ یہ نتائج چاہتے ہیں اور یہ ہی امریکا سے مذاکرات کریں گے۔‘‘