امریکا نے دس روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کر دیا، روس کاجوابی کارروائی کا اعلان

Joe Biden and Putin

Joe Biden and Putin

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے ہیکنگ اور انتخابات میں مداخلت کے الزام میں روس کی متعدد کمپنیوں اور افراد پر پابندیاں عائد کر دیں اور دس سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ روس نے اس اقدام کے خلاف جارحانہ جواب دینے کا اعلان کیا۔

امریکا نے روس کی جانب سے انتخابات میں مداخلت، ہیکنگ کی کوششیں اور دیگر ‘قابل اعتراض‘ سرگرمیوں کے خلاف وسیع تر کارروائی کرتے ہوئے جمعرات کے روز دس روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا، ان میں روسی انٹلیجنس سروسز کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ہیکنگ کے الزام، جسے سولر ونڈ بریچ کہا جاتا ہے، میں کریملن کے خلاف یہ پہلی جوابی کارروائی ہے۔ اس اقدام کے تحت چھ روسی کمپنیوں پر بھی پابندیا ں عائد کی گئی ہیں جنہوں نے سائبر سرگرمیوں میں معاونت کی تھی۔ اس کے علاوہ بتیس افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں جن پر گزشتہ برس صدارتی انتخابات کو متاثر کرنے اور گمراہ کن اطلاعات پھیلانے کا الزام ہے۔

روس نے امریکی پابندیوں کا جلد جواب دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ کر رہا ہے۔ روس کی وزارتِ خارجہ نے روس میں تعینات امریکی سفیر کو طلب کر لیا ہے۔

امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔

صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا تھا کہ گزشتہ برس کے صدارتی انتخابات کو متاثر کرنے اور متعدد وفاقی ایجنسیوں کی ہیکنگ کے لیے کریملن کو جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس غیر قانونی ہیکنگ سے، ایک نقصان دہ کوڈ کے ذریعے وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے سافٹ ویئر کو خراب کیا گیا، جس سے روس کو امریکا کے کم ازکم نو اداروں کے نیٹ ورکس تک رسائی حاصل ہو گئی۔ امریکی عہدیداروں کے خیال میں اس ہیکنگ کا مقصد امریکی حکومت کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرکے انہیں اکٹھا کرنا تھا۔

اس ہیکنگ کے علاوہ گزشتہ ماہ امریکی حکام نے الزام لگایا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے بطور صدر دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی ناکامی پر ان کی مدد کے لیے اثر و رسوخ پر مبنی آپریشنز کی اجازت دی تھی۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سائبر حملوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ غالباً ان کی انتظامیہ ان حملوں کے سلسلے میں روس کے ملوث ہونے کے بارے میں درست اندازہ نہیں لگا سکی۔ انہوں نے کہا تھا کہ روس کے بجائے ان حملوں کے پیچھے چین کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر بائیڈن سفارتی، فوجی اور انٹیلیجنس ذرائع استعمال کرتے ہوئے اُن رپورٹس پر اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن کے مطابق، روس نے افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج پر حملوں کے لیے حوصلہ افزائی کی تھی۔

گزشتہ برس ایسی مبینہ رپورٹس آئی تھیں کہ روس نے طالبان کے لیے امریکی فوجیوں کی جانوں کی قیمت مقرر کی تھی۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کو اس بات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ انہوں نے اس معاملے پر براہ راست روس کے ساتھ بات کیوں نہیں کی۔

وائٹ ہاوس نے گو کہ ان رپورٹوں کی کھل کر تصدیق نہیں کی تھی۔ لیکن جمعرات کے روز وائٹ ہاؤس نے کہا ہے، ”امریکی اور اتحادی افواج کا تحفظ اور بہبود امریکا کی اولین ترجیح ہے”۔

روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ جلد ہی ان پابندیوں کا جواب دے گا۔ اس نے ماسکو میں امریکی سفیر کو طلب کرلیا ہے۔

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا رزاخاروا نے نامہ نگاروں کو بتایا ”امریکی سفیر اس وقت روسی وزارت خارجہ کے دفتر میں ہیں۔ میں نے شاید ہی پہلے کبھی ایسی بات کہی ہو لیکن میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ امریکی سفیر کے لیے یہ ملاقات خوشگوار نہیں ہوگی۔”

انہوں نے کہا کہ امریکا کی نئی پابندیاں امریکی صدر بائیڈن کی روس کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی خواہش کے برعکس ہیں جبکہ روس متعدد دفعہ امریکہ کو مخالفانہ اقدامات کے نتائج سے خبردار کر چکا ہے۔

امریکا کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولینڈ نے بھی وارسا میں روسی سفارت خانے کے تین سفارت کاروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک چھوڑدینے کا حکم دیا۔ روس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے پولینڈ کے تین سفارت کاروں کو ماسکو سے نکال دیا۔

مغربی فوجی اتحاد نیٹو نے امریکا کے اقدامات کی حمایت کی ہے۔ نیٹو نے ایک بیان میں کہا ”نیٹو کے اتحادی ممالک روس کی طرف سے عدم استحکام کی سرگرمیوں کے جواب میں امریکا کی جانب سے پندرہ اپریل کو اقدامات کے اعلان کی حمایت کرتے ہیں اور امریکا کے ساتھ ہیں۔ اتحادی ممالک انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر اتحاد کی اجتماعی سکیورٹی میں اضافہ کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔”

یورپی یونین نے بھی امریکا کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ ہیکنگ کی وجہ سے یورپی یونین کے مفادات بھی متاثر ہوچکے ہیں۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ امریکا کی طرف سے روس کے خلاف مزید کوئی اقدامات اٹھائے جائیں گے یا نہیں۔ لیکن امریکی عہدیدار اس معاملے پر کھلے عام اور پوشیدہ اقدامات کا عندیہ پہلے ہی دے چکے ہیں۔