امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پیچیدگیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
سن 2020 کی صدارتی مہم کے دوران جو بائیڈن نے خاشقجی کے قتل کے حوالے سے سعودی حکام کے خلاف سخت ایکشن لینے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنی مہم کے دوران سعودی عرب کو ایک ہلکی ریاست بھی قرار دیا تھا۔
امریکی خفیہ ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کی منشا شامل تھی۔ لیکن اس رپورٹ کے بعد صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کے خلاف کوئی سخت اقدام اٹھانے سے بظاہر گریز کیا ہے۔
ٹرمپ دور میں امریکا کو سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرنے پر کڑی تنقید کا بھی سامنا رہا۔ رواں برس بیس جنوری کو جو بائیڈن صدر کا حلف اٹھانے کے بعد امریکی افواج کے سپریم کمانڈر ان چیف بن گئے۔ بعض حلقوں کو ان سے توقعات تھیں کہ وہ سعودی عرب کے متنازعہ اقدامات پر سخت موقف اختیار کریں گے۔
لیکن بظاہر انہوں نے سعودی عرب میں امریکی مفادات دیکھتے ہوئے اپنے عزائم میں قدرے نرمی اختیار کر لی ہے اور ترجیحات کا از سرنو تعین کیا جا رہا ہے۔
بظاہر موجودہ انتظامیہ کا لہجہ نرم ہو چکا ہے۔ لیکن بعض حلقے چاہتے ہیں کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر قیادت کے خلاف واضح اور سخت موقف اختیار کیا جائے۔ حکومت میں شامل اس موقف کے حامی حلقوں کو فی الحال تحمل اور مناسب وقت کے انتظار کا مشورہ دیا گیا ہے۔
امریکی حکومت سعودی عرب پر سفارتی دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ خاشقجی رپورٹ کا اجراء بھی اس تناظر میں ہے تا کہ سعودی قوم رپورٹ کی تفصیلات جان کر شرمندگی محسوس کرے۔ اگلے مرحلے میں سعودی ولی عہد کو ممکنہ تادیبی اقدام کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سابقہ امریکی سفارت کار ولیم لارنس کا کہنا ہے کہ رپورٹ عام کر کے جو بائیڈن انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ محمد بن سلمان سے خوش نہیں اور اس مناسبت سے مزید آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ امریکا کی کوشش ہوگی کہ ایک ناپسندیدہ شخصیت کے طور پر محمد بن سلمان کو نظر انداز کیا جائے۔
صدر جو بائیڈن نے بظاہرسعودی عرب میں امریکی مفادات دیکھتے ہوئے اپنے عزائم میں قدرے نرمی اختیار کر لی ہے
اس ضمن میں اطلاعات ہیں کہ صدر جو بائیڈن نے ان سے براہ راست بات کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ سفارت کار ولیم لارنس کا کہنا ہے کہ واشنگٹن حکومت اپنے ارادے کو عام کرتے ہوئے دباؤ کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔
جو بائیڈن ایران کے ساتھ سن 2015 میں طے پانے والی جوہری ڈیل میں دوبارہ شمولیت کا عندیہ دے چکے ہیں۔ مڈل ایسٹ اور افریقن اسٹدیز انسٹیٹیوٹ کے ریسرچر اسٹیون کُک کا خیال ہے کہ جب بھی امریکا ایران کے ساتھ ایک نئے معاہدے کی بات چیت شروع کرتا ہے تو سعودی عرب اسے اپنے خلاف تصور کرتا ہے۔
اسٹیون کُک کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تناظر میں سعودی عرب کی حکومت کا دباؤ بہت محدود ہو گا اور وہ صرف رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرے گی۔ ان خیال ہے کہ امریکی عزائم میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے سعودی حکام اپنے وسائل کا بھرپور استعمال کر سکتے ہیں۔