امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن بھارت کے دورے پر ہیں۔ جنوری میں جو بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ امریکا کے کسی کابینہ کے وزیر کا بھارت کا پہلا دورہ ہے۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن جمعہ 19مارچ کو بھارت کے تین روزہ دورے پر نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت ہورہا ہے جب بھارت اور چین کے درمیان لداخ میں سرحد پر مئی 2020 ء سے جاری فوجی کشیدگی اب تک ختم نہیں ہو سکی ہے۔
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ لائیڈ آسٹن اپنے بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ کے علاوہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال، وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور دیگر اعلی رہنماؤں سے بات چیت کریں گے۔ امید ہے کہ دونوں ملکوں کے رہنما افغانستان میں قیام امن کی صورت حال پر بھی تبادلہ کریں گے۔
امریکی وزیر دفاع کے دورہ بھارت کے حوالے سے پینٹاگون کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے، ”وزیر دفاع آسٹن بھارتی رہنماؤں کے ساتھ امریکا۔ بھارت دفاعی پارٹنرشپ اور دونوں ملکوں کے مابین ایک آزاد اور خوشحال بھارت بحرالکاہل اور مغربی بھارتی سمندری علاقے میں تعاون کو مزید فروغ دینے کے سلسلے میں تبادلہ خیال کریں گے۔“
تھائی لینڈ کے پاس ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جسے 1997 میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ بحری بیڑہ اب بھی ملکی بحریہ کے استعمال میں ہے۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے دورہ بھارت سے ایک روز قبل امریکی سینیٹ میں خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین باب مینینڈیز نے انہیں ایک خط لکھ کر بھارت کے روس سے ایس 400 میزائل سسٹم کی خریداری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مینینڈیز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اگر بھارت اور روس کے درمیان یہ دفاعی معاہدہ ہوجاتا ہے تو امریکا کو بھارت کے خلاف پابندیاں عائد کرنی پڑیں گی۔ انہوں نے آسٹن سے کہا ہے کہ وہ ان خدشات کو بھارتی رہنماؤں کے سامنے واضح طور پر پیش کریں اس کے علاوہ اپنی بات چیت کے دوران ”بھارتی رہنماؤں کو بھارت میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے امریکا کی تشویش سے بھی آگاہ کریں۔“
مینینڈیز نے لکھا ہے کہ بھارت اور امریکا کی شراکت ”اسی وقت سب سے زیادہ مستحکم ہوگی جب دونوں فریق جمہوری قدروں پر اپنے یقین کا مظاہرہ کریں لیکن بھارت ان قدروں سے دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔“
مینینڈیز نے اس سلسلے میں کسان تحریک کے خلاف مرکز کے سخت اقدامات اور حکومت کے ناقدین کو خوف زدہ کرنے کی کوششیں، گزشتہ برسوں کے دوران مسلم مخالف جذبات بھڑکانے، شہریت ترمیمی قانون جیسے اقدامات کی مثالیں دی ہیں۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین نے اپنے خط میں مخالف سیاسی نظریات کو کچلنے، کشمیر میں آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے، سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرنے اور سیاسی اختلافات کو ملک سے غداری کے قانون کے ذریعہ دبانے کی کوشش جیسے اقدامات کا بھی ذکر کیا ہے۔
مینینڈیز نے امریکی وزیر دفاع کو یاد دلایا ہے کہ انہیں وجوہات کی بنا پر امریکی انسانی حقوق گروپ فریڈم ہاؤس نے اپنی تازہ رپورٹ میں بھارت کے ’آزاد‘ ملک کے درجے کو واپس لے لیا ہے۔
لائیڈ آسٹن کے بھارت کے اس دورے کو امریکی صدر جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی کے تحت امریکا۔ بھارت تعلقات کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں اہم سمجھا جارہا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی کواڈ گروپ کے ملکوں کی ورچوئل میٹنگ میں بائیڈن نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بات چیت کی تھی۔ امریکی وزارت دفاع نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ”آسٹن کا اپنے غیر ملکی دورے کے تحت سب سے پہلے بھارت کا دورہ کرنا بھارت اور امریکا کے اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔“