افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) ایسے موقع پر جب افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی تاریخ قریب آ رہی ہے، امریکی وزیر دفاع نے کابل میں افغان صدر سے بات چیت کی ہے۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اتوار 21 مارچ کو اچانک غیر اعلانیہ کابل کا دورہ کیا اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سمیت سینیئر افغان حکام سے بات چیت کی۔ گزشتہ برس طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء میں اب چندہفتے باقی رہ گئے ہیں اور اس لحاظ سے یہ دورہ کافی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔
افغان صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق فریقین نے جنگ زدہ ملک میں حالیہ مہینوں میں تشدد میں اضافے کی مذمت کی اور وہاں کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک پائیدار اور منصفانہ امن عمل کی ضرورت پر زور دیا۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا، ”یہ تو واضح ہے کہ ملک میں تشدد کی سطح کافی اونچی ہے۔ ہم حقیقتاً تشدد میں کمی دیکھنا چاہتے ہیں اور میرے خیال سے اگر اس میں کمی آجائے، تو آپ کو معلوم ہے، کچھ واقعی نتیجہ خیز سفارتی کام کے لیے ماحول تیار ہونے کا کام شروع ہوسکتا ہے۔”
امریکی وزیر دفاع اس ہفتے ایشیا کے دورے پر تھے اور جاپان، جنوبی کوریا اور بھارت کا دورہ کرنے کے بعد کابل پہنچے تھے۔
چند روز قبل ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی یکم مئی کی جو تاریخ مقرر کی تھی اس پر عمل کرنا ”بہت مشکل ہوگا۔” اس بیان کے فوری بعد ہی امریکی وزیر دفاع کابل کے دورے پر پہنچے تھے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کے رد عمل میں طالبان نے کہا تھا کہ اگر امریکی فوج انخلاء کی تاریخ کے بعد بھی موجود رہتی ہے تو اسے اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
امن مذاکرات میں شامل طالبانی نمائندے سہیل شاہین نے گزشتہ جمعے کے روز کہا تھا، ”یہ ایک طرح سے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔ یہ خلاف ورزی ہماری جانب سے نہیں ہوگی… ان کی خلاف ورزی پر رد عمل بھی ہوگا۔”
گزشتہ برس قطر کے دوحہ میں ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکا نے تمام امریکی اور دیگر غیرملکی فوجیوں کو یکم مئی تک افغانستان سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے بدلے میں طالبان نے القاعدہ جیسے دہشت گروپوں سے تعلقات منقطع کرنے کے ساتھ ہی بین افغان مذاکرات میں شرکت کا وعدہ کیا تھا۔
لیکن جو بائیڈن کی انتظامیہ کی فوج کے انخلا میں جلد بازی نہ کرنے کی اپنی منطق ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے صحافیوں سے بات چیت میں یکم مئی کی انخلا کی تاریخ کا کوئی ذکر نہیں کیا اور اس سے متعلق ایک سوال کا جواب دینے سے منع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا، ”یہ میرے باس کا دائرہ اختیار ہے۔ یہ فیصلہ صدر بائیڈن کو کرنا ہے کہ کس وقت پر اور کیسے اس سمت میں پیش رفت کرنی ہے۔”
لائیڈآسٹن نے 41 برس تک امریکی فوج میں خدمات انجام دیں ہیں۔ اوباما کے پہلے دور اقتدار میں انہوں نے عراق میں اتحادی فوج کی قیادت بھی کی تھی۔ وہ 2012 ء میں امریکا کے پہلے سیاہ فام نائب فوجی سربراہ کے عہدے پر بھی فائز ہوئے جو امریکی فوج میں دوسرا سب سے اہم عہدہ ہے۔ بعد میں انہیں امریکی سینٹرل کمانڈ کی ذمہ داری سونپی گئی اور عراق اور شام میں شدت پسند تنظیم داعش کو شکست دینے کے لیے جنگ بھی انہیں کی قیادت میں لڑی گئی۔ وہ افغانستان میں بھی تعینات کیے گئے تھے۔