تحریر : محمد صدیق پرہار امریکی وزیر خارجہ پاکستان میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر کرنے آئے تھے یا پاکستان کو یہ کرووہ کرو کہنے آئے تھے۔اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں امریکہ کی جانب سے اعلان کردہ افغان پالیسی کی جانب متوجہ ہونا ہو گا۔امریکہ کی یہ افغان پالیسی کو پاکستان پالیسی کہا جائے توزیادہ بہتر ہوگاکیوں کہ اس پالیسی میں ٹرمپ نے پاکستان بارے جوکچھ کہا ہے وہ امریکی عزائم کی واضح دلائل ہیں۔
امریکی سنینٹرجان مکین نئی افغان حکمت عملی میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان طالبان کی مبینہ مدداورافغانستان میں انتشارپھیلانے والے طالبان اورحقانی نیٹ ورک کومحفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتارہا تواسے سفارتی، فوجی اور معاشی پابندیوں کا سامناکرناپڑسکتاہے۔امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ جس حکمت عملی پرکام کررہی ہے اس سے امریکہ کے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ نئے طریقے سے تعلقات استوارہوں گے۔یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جب امریکی کابینہ کی سطح کے حکام نے اشارہ دیا ہے کہ امریکہ کی افغانستان بارے پالیسی میں پاکستان سے متعلق حکمت عملی بھی شامل ہے۔نئی امریکی حکمت عملی میں پاکستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں امریکی سیکرٹری سٹیٹ کاکہناتھا کہ علاقائی تناظرمیں آنے والے ممالک اس حکمت عملی میں شامل ہوں گے۔امریکی صدرٹرمپ کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلے خطاب میں بھی پاکستان کے بارے اس کے عزائم واضح ہوتے ہیں۔
اپنے ٹوئٹرپرجاری کردہ بیان میں ٹرمپ کاکہناتھا کہ پاکستان کے ساتھ حقیقی بہترتعلقات کا آغاز کررہے ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ کئی محاذوں پرتعاون کرنے پرپاکستان کاشکریہ اداکرناچاہتاہوں ۔پاکستان نے کئی سال امریکہ سے فائدہ اٹھایا اب بحیثیت قوم امریکہ کاپھرسے احترام شروع کردیا ہے۔وزیراعظم ہائوس کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق امریکی سفیرسے گفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم نے مشترکہ اہداف کے حصول اورباہمی دلچسپی کے دوسرے معاملات پرمل کرکام کرنے کی اہمیت پرزوردیا،ملاقات میں اس بات پراتفاق کیاگیا کہ پاکستان اورامریکہ کے درمیان دہائیوںپرانے تعلقات کوکثیرجہتی روابط کے ذریعے مزیدمضبوط بنایاجائے گا۔تحریرکوآگے بڑھانے سے پہلے مناسب ہے کہ یہ یاددہانی کرلی جائے کہ امریکی وزیرخارجہ کے دورہ پاکستان میں وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کے ساتھ ملاقات میں کیا گفتگوہ وئیوزیراعظم شاہدخاقان عباسی اورامریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کے درمیان وفودکی سطح پرملاقات میں آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ ،ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نویدمختار،وزیرداخلہ احسن اقبال، وزیردفاع خرم دستگیرسمیت دیگربھی موجودتھے۔جبکہ امریکی وفدمیں پاکستان میں تعینات امریکی سفیربھی شریک ہوئے۔ملاقات میں دوطرفہ تعلقات ،افغانستان میں قیام امن ،خطے میں سلامتی اورباہمی تعاون سمیت دیگرامورپربات چیت ہوئی جب کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پربھی تفصیلی تبادلہ خیال کیاگیا۔بھارت کی جانب سے پاکستان کوغیرمستحکم کرنے پربات کی گئی۔ملاقات میں پاکستانی قیادت نے امریکی وزیرخارجہ کونئی امریکی پالیسی سے متعلق اپنے خدشات سے بھی آگاہ کیا ۔اس موقع پرامریکی وزیرخارجہ کاکہناتھا کہ پاکستان خطے میں امریکہ کے لیے اہمیت کاحامل ملک ہے۔
جب کہ پاکستان امریکہ تعلقات خطے میںامن وسلامتی کے فروغ میں بھی اہم ہیں۔ٹلرسن نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ پرانی شراکت داری ہے۔پاکستان خطے میں اہم امریکی سٹرٹیجک اتحادی ملک ہے۔خطے میں قیام امن اورسیکیورٹی کے لیے پاکستان کاکرداراہم ہے۔دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کی قدرکرتے ہیں۔پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی سمیت تمام شعبوںمیں تعلقات مزیدمضبوط بناناچاہتے ہیں۔وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کااس موقع پرکہناتھا کہ پاکستان خطے میںامن واستحکام اورگہرے معاشی تعلقات کے مواقع پیداکرنے کے ہمارے مشترکہ اہداف کے لیے نہایت اہم ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پرعزم ہے۔ہم نے نتائج حاصل کیے ہیں اورامریکہ کے ساتھ مل کرآگے بڑھنے اوربہترین تعلقات قائم کرنے کے لیے بھی پرعزم ہیں۔امریکہ یقین دہانی کرواسکتاہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسٹرٹیجک حصہ دارہیں۔آج پاکستان دنیامیں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑرہاہے۔سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں عالمی برادری کوپاکستان کی قربانیوں کی قدرکرناچاہیے۔دونوں ممالک کواقتصادی اورمعاشی تعاون کوفروغ دیناچاہیے۔ہم جن باتوں پرمتفق ہیں ان کوسراہتے ہیں اوررابطوں پرتحسین پیش کرتے ہیں۔خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقوام عالم کوکرداراداکرناہوگا۔بھارت خطے میں امن کی کوششوں کے لیے خطرہ ہے۔
بھارت بلوچستان اورایل اوسی پرجارحیت کررہاہے۔امریکی وزیرخارجہ خواجہ آصف کی دعوت پرپاکستان کے دورے پرآئے۔ٹرمپ کے اقتدارمیں آنے کے بعدان کی انتظامیہ کے اہم وزیرکادورہ پاکستان اورامریکاکے دوطرفہ سفارتی اوردفاعی تعلقات کے نئے دورکانکتہ آغازقراردیاجارہا ہے۔امریکی سیکرٹری اسٹیٹ نے افغانستان میں بگرام ایئربیس پرصحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاتھا کہ امریکہ جنوبی ایشیادہشت گردی کے خطرے سے بچنے کے لیے اپنے علاقائی اتحادیوں سے مل کرکام کرناچاہتاہے۔امریکہ نے پاکستان سے طالبان کوکمزورکرنے کے لیے کچھ مخصوص درخواستیں کی ہیں۔واشنگٹن میں امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ریکس ٹلزسن نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہم خطے کے دیگرممالک سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ خطے میں کہیں بھی دہشت گردوں کومحفوظ پناہ گاہیں قائم نہ کرنے دیں۔جب کہ امریکا اس حوالے سے اعلیٰ سطح پرپاکستان کے ساتھ کام کررہا ہے۔امریکانے پاکستان سے طالبان اوردیگردہشت گردتنظیموںکوموصول ہونے والی حمایت کے خلاف کارروائی سے متعلق مخصوص درخواستیں کی ہیں۔چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیرمحمودحیات نے امریکہ پرواضح کردیا کہ پاکستان کے لیے امریکہ کاڈومورکافارمولااب کارآمدنہیں۔پاکستان خودمختار اور ذمہ دارایٹمی قوت ہے۔ہم نے دہشت گردوںکے ٹھکانوں کوچن چن کرختم کیا ہے۔
افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے پاکستان نے ہمیشہ اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ ہرممکن تعاون کیاہے۔ہم چاہتے ہیں افغانستان میں امن قائم ہواوروہاں کے شہری آزادفضامیں سانس لے سکیں۔اگرامریکانے افغانستان میں کامیابی حاصل کرناہے توپھراس کواپنی فغان پالیسی پرنظرثانی کرناہوگی۔پاکستان کبھی بھی خطے میں بھارت کی تھانیداری کاخواب پورانہیں ہونے دے گا۔جنرل زبیر حیات نے امریکی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کوباورکرادیا ہے کہ نئی افغان پالیسی میں بھارتی کردارکے فوائدکے بجائے نقصانات ہوں گے۔بھارت افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ جس کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کوہوادینے اوروہاں کے لوگوں کوورغلانے کے لیے گھنائوناکرداراداکررہا ہے۔دہشت گردوں کی پشت پناہی کے حوالے سے جب تک امریکاخطے میںبھارتی اثرورسوخ کوکم نہیںکرتااس وقت تک افغانستان میں دیرپاامن قائم نہیںہوسکتا۔چیئرمین سینٹ رضاربانی کہتے ہیں کہ ٹلرسن کالہجہ مناسب نہیں ایسے بیان دیاجیسے کوئی وائسرائے آرہا ہو۔وزیرخارجہ خواجہ محمدآصف نے سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعدبڑاسمجھوتہ کیاجس کانتیجہ ہمیں اب بھگتناپڑرہا ہے لیکن اب ہم قومی مفاد پرنہ توکوئی سمجھوتہ کریں گے اورنہ ہی ماضی کی طرح ایک دھمکی پرڈھیرہوںگے۔ہمارااقتدارامریکاکانہیںبیس کروڑ عوام کامرہون منت ہے۔جنہوںنے ماضی میں فیصلے کیے وہ اپنے اقتدارکی ضمانت امریکاسے مانگتے تھے۔خواجہ آصف نے کہا کہ امریکی وزیرخارجہ سے اچھے ماحول میں گفتگوہوئی۔ پہلی دفعہ تمام اداروں کے سربراہوںنے ایک ہی چھت کے نیچے امریکی وزیرخارجہ سے بات کی۔مذاکرات میں ہمارارویہ معذرت خواہانہ نہیں تھا۔امریکاکوکہاہے کہ انٹیلی ایجنس معلومات دے ہم خودکارروائی کریں گے۔امریکاکوکہا ہے کہ ہم امدادنہیں برابری کی سطح پرتعلقات چاہتے ہیں۔وزیرخارجہ کاکہناتھا کہ ہمارے ادارے پاکستان کے مفادکاآخری دم تک تحفظ کریں گے۔امریکی وزیرخارجہ کوواضح کردیا کہ پاکستان پراکسی وارکاحصہ نہیں بنے گا۔سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ ہم پچھلے دوماہ کے دوران امریکاکے دبائومیںنہیں آئے۔اکیس اگست کے بعدپارلیمنٹ نے دنیاکومتحدہوکرپیغام دیا۔افغان مسئلے کاحل فوجی ایکشن سے نہیںمذاکرات سے ہوگا۔افغانستان میں اتحادی افواج کوناکامیاں ملیں۔طالبان کومذاکرات پرلائے تو ملا منصورکوماردیاگیا۔افغانستان کا بھارت کے لیے سہولت کارکاکردارقابل قبول نہیں ہے۔
اس بات کاتعین کرناضروری ہے کہ امریکانے پاکستان کوڈومورکہا ہے یاپاکستان نے امریکاکو۔ایک طرف امریکانے پاکستان سے طالبان کے حوالے سے مخصوص درخواستیں کی ہیں تودوسری طرف پاکستان نے بھی امریکاکی نئی افغان پالیسی پراپنے خدشات بتادیے ہیں۔پاکستان نے امریکاپرواضح کردیاہے کہ خطے میں دہشت گردی نہ رکنے اور افغانستان میں امن قائم نہ ہونے کاذمہ دارپاکستان نہیں بھارت ہے۔بھارت ہرمحاذ پرپاکستان سے جارحیت کررہاہے۔جنرل زبیرمحمودحیات نے بھی واضح کردیاہے کہ دہشت گردوںکی پشت پناہی پاکستان نہیں بھارت کررہا ہے۔پاکستان نے امریکاکوواضح کردیا ہے کہ اب پاکستان پرپریشرڈالنے کاوقت نہیں رہا۔امریکاخطے میں دہشت گردی ختم کرنا چاہتاہے تواسے بھارت کے اس کردارپرغورکرناہوگا جس کی وجہ سے خطے میں دہشت گردی ختم نہیں ہورہی۔پاکستان نے امریکاپریہ بھی واضح کردیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دنیامیں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردارکوتسلیم کیاجائے نہ کہ اس کے کردارپرشک کیاجائے۔ پاکستان نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ افغانستان میں بھی امن چاہتاہے۔پاکستان نے امریکاپرواضح کردیاہے کہ جب تک خطے میںبھارت کے اثرورسوخ کوکم نہیں کیاجاتااس وقت تک دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے نہ ہی افغانستان میںامن قائم ہوسکتاہے۔امریکی وزیرخارجہ کادورہ پاکستان دونوںملکوں کے درمیان تعلقات کوجاری رکھنے کے لیے نہیں یہ کرووہ کروکہنے کے لیے تھا۔امریکاپاکستان سے ایسے تعلقات چاہتاہے کہ وہ جوکہتارہے پاکستان ویسے ہی کرتارہے۔تعلقات برقراررکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں امریکاپاکستان سے کوئی کرداراداکرنے کوچاہتاہے تووہ پاکستان کے خدشات اورتحفظات بھی دورکرے۔پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے میںجورکاوٹیں بتائی ہیں وہ بھی دورکرے۔تعلقات برابری کی سطح پرہوتے ہیں۔امریکی وزیرخارجہ کے دورہ پاکستان میں ایسے کوئی اشارے نہیںملے جس سے یہ واضح ہوتاہوکہ امریکابرابری کے تعلقات چاہتاہے اوراس کے لیے کیااقدامات کررہا ہے۔امریکی وزیرخارجہ نے توبھارت کے منفی کرداربارے کوئی بات نہیں کی۔