امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی سینیٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ایمی کونی بیرٹ کی نامزدگی کی توثیق کردی ہے۔ اسے صدارتی انتخابات سے قبل ٹرمپ کی ایک اہم کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
امریکی سینیٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سپریم کورٹ کے جج کے طورپر ایمی کونی بیرٹ کی نامزدگی کی پیر کے روزتوثیق کردی۔ وہ جسٹس رتھ بیڈر جنسبرگ کے انتقال کی وجہ سے خالی ہونے والی نشست کے لیے نامزد کی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ کے جج کے طورپر ان کے نام کی توثیق کو امریکی عدلیہ کے لیے ایک نئے عہد کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔
ایمی کونی بیرٹ کو سپریم کورٹ میں جج کے طور پر تعینات کی منظوری دینے کے لیے سینیٹ میں ووٹنگ ہوئی۔ جس میں 52اراکین نے کونی کے حق میں جب کہ 42 نے ان کے خلاف ووٹ دیا۔
سینیٹ کی طرف سے کثرت رائے سے توثیق کے بعد 48 سالہ بیرٹ سپریم کورٹ میں اس عہدے پر تاحیات فائز رہیں گی۔ سینیٹ سے ان کی نامزدگی کی توثیق کے بعد وائٹ ہاؤس میں منعقد ایک تقریب میں سپریم کورٹ کے جسٹس کلیئرنس تھامس نے ان سے عہدے کا حلف لیا۔ وہ سپریم کورٹ میں صدر ٹرمپ کی طرف سے نامزد کی جانے والی تیسری جج بن گئی ہیں۔
اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے کہا”یہ امریکا کے لیے ایک اہم دن ہے۔” تقریب میں صدر ٹرمپ اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ کے علاوہ تقریباً 200 افراد شریک تھے۔
ایمی کونی بیرٹ نے اس موقع پرشرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کسی بھی خوف اور کسی کی حمایت کے بغیر اپنا کام انجام دیں گی۔ انہوں نے کہا ”ایک جج کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی ترجیحات سے متاثر ہوئے بغیراپنے کام سرانجام دے۔”
امید ہے کہ وہ منگل سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گی۔ ان کی تقرری کے بعد اسقاط حمل، سستے صحت خدمات اور خود ٹرمپ کے انتخاب جیسے معاملات پر فیصلوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔
ایمی کونی بیرٹ کو قدامت پسند خیالات کی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ کا حصہ بننے کے بعد وہ اس عہدے پر تاحیات کام کرتی رہیں گی۔ ان کی پیش رو جسٹس رتھ بیڈر جنسبرگ کو آزاد خیال کے علمبرداروں کے لیے ایک مثالی شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا۔
یہ پہلا موقع تھا جب امریکی صدارتی انتخابات سے ٹھیک پہلے سپریم کورٹ کے کسی جج کی تقرری ہوئی ہے۔ اسی طرح یہ امریکا کی جدید تاریخ میں ہونے والی پہلی ووٹنگ تھی جس میں مخالف پارٹی کے کسی امیدوار کی جانب سے کوئی ووٹ نہیں دیا گیا۔
حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے ایمی کونی کی نامزدگی کی شدید مخالفت کی تھی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ کے جج کے انتخاب کا معاملہ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے صدر پر چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن حکمراں ری پبلیکن پارٹی کا کہنا ہے کہ سینیٹ درست کام کر رہی ہے۔
انتخابات سے ٹھیک ایک ہفتے پہلے سپریم کورٹ میں کئی اہم معاملات کے فیصلے ہونے والے ہیں اور ایمی کونی بیرٹ کا ووٹ ان میں سے کئی کیسز میں فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ ان میں نارتھ کیرولائنا اور پینسلوینیا ریاستوں میں ایبسینٹی بیلٹ کی مدت میں توسیع اور ٹرمپ کی یہ ایمرجنسی اپیل کہ مین ہٹن ڈسٹرکٹ اٹارنی کو ان کے انکم ٹیکس ریٹرن حاصل کرنے سے روکا جائے، شامل ہیں۔