امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں اٹھارہ سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے دوحہ میں امریکا اور طالبان ایک معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ باغی گروپ کے لیے بہت ساری رعایات کے ساتھ طے کیا جا رہا ہے۔
‘امریکا طالبان معاہدے‘ پر دستخط کی تقریب کے لیے دوحہ میں حتمی انتظامات کیے جا چکے ہیں۔ ہفتہ انتیس فروری کو اس معاہدے پر دستخط ہوں گے۔ اس تاریخی تقریب میں امریکا کے اعلیٰ عہدیدار، طالبان کے مذاکرات کار اور مختلف ممالک کے مندوبین کی شرکت کا امکان ہے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہی امریکا اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے متعدد مرتبہ بات چیت کی تھی۔ گزشتہ برس اگست میں، دونوں فریق ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بہت قریب آگئے تھے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ستمبر میں افغانستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے امریکی فوجیوں پر حملے کے بعد مذاکرات روک دیے تھے۔
لیکن چند ہی ہفتوں کے اندر، دوحہ مذاکرات کے لیے ایک مرتب پھر راہ ہموار ہوگئی، اور ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ بات چیت ختم کرنے کے پانچ ماہ سے بھی کم عرصے میں، امریکا اور طالبان اب ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنے کم عرصے میں ایسی کیا تبدیلی ہوئی کہ واشنگٹن اپنے ایک سخت ترین دشمن کے ساتھ معاہدے پر مہر لگانے کے لیے آمادہ ہو گیا۔
افغانستان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ بنیادی طور پر افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے بارے میں ہے جو کہ طالبان کا ایک اہم مطالبہ رہا ہے۔ ان کے مطابق صدر ٹرمپ کے لیے آئندہ امریکی انتخابات میں اپنی جیت کے امکانات کو یقینی بنانےکے لیے امریکی فوجیوں کو ملک میں واپس لانا اشد ضروری ہے۔ ماہرین کے بقول، ”معاہدے میں جلد بازی کے پیچھے یہ بھی ایک وجہ ہے۔‘‘
افغانستان میں قیام امن کے لیے جاری مذاکراتی عمل میں اسلام آباد کے کردار پر نظر رکھنے والے سکیورٹی امور کے پاکستانی تجزیہ کار علی چشتی کے مطابق پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان پر اپنے اثرورسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے طالبان کی طرف سے واشنگٹن کو یقین دہانی کرائی ہے۔ چشتی کے بقول، ”انہوں نے (پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ) اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستانی طالبان، افغان طالبان کو افغانستان میں امریکی افواج پر حملے روکنے پر راضی کرنے پر مجبور کریں۔‘‘ چشتی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کام کے لیے صدر ٹرمپ نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کو بھی استعمال کیا ہے۔
علاوہ ازیں اس معاہدے میں یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں موجود اپنے 12000 فوجیوں کی تعداد کم کر کے اسے 8600 تک لے آئے گی۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی یہ نمایاں کمی ہوگی، جس کی وجہ سے افغان فورسز کو طالبان کے دباؤ کا سامنے کرنا پڑے گا۔ امریکی فوجی دستوں کے انخلاء کے نتیجے میں افغان صدر اشرف غنی کی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ان کے ساتھ مزید سمجھوتے کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔
اس بارے میں چشتی نے کہا، ”بدقسمتی سے، نہ تو امریکا اور نہ ہی علاقائی ممالک، کابل حکومت کو ایک اہم فریق کے طور پر دیکھتے ہیں۔ صدر غنی یقیناﹰ ایک اہم شخصیت ہیں، لیکن اس معاہدے کا طالبان، امریکا اور پاکستان کے ساتھ زیادہ لینا دینا ہے۔‘‘
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں انتہائی ضروری سیاسی حل کی راہ ہموار کرنے کے لیے اور کوئی راستہ نہیں ہوسکتا۔ مبینہ طور پر پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان، ملک میں طویل عرصے سے امریکی فوجی کارروائی کے باوجود کافی مضبوط ہیں۔ اور امریکا افغانستان میں موجودگی مسلسل برقرار نہیں رکھ سکتا۔ آخر میں، کسی امن معاہدے کے لیے افغان گروپوں کے مابین مناسب مذاکرات کی ہی ضرورت ہوگی۔
کابل میں مقیم انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن حمیرا ثاقب نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ اس معاہدے کے بارے میں افغانستان کے عوام کو بہت کم معلومات ہیں جس کی وجہ سے ان کو معاہدے پر تشویش ہے۔ حمیرا کے بقول، ”طالبان کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بھی بات چیت ہو رہی ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان کو کونسی شرائط پر رہا کیا جائے گا۔‘‘
دوحہ میں افغان حکومت کا ایک وفد امریکا اور طالبان کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کی تقریب میں موجود ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اس میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں۔
طالبان، افغان حکومت کو ”امریکی کٹھ پتلی‘‘ قرار دیتے ہیں اور وہ ان کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کرنے سے گریزاں ہیں۔ کیا طالبان کا یہ رویہ معاہدے کے بعد تبدیل ہو سکے گا؟
افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو دوحہ میں بتایا کہ حکومت نے طالبان سے ابتدائی رابطے قائم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ صدیقی کے بقول، ”ہم نے طالبان کی جانب سے کیے گئے مطالبے کے نتیجے میں یہ کمیٹی قائم کی ہے اور طالبان کے یہ مطالبے ہمارے بین الاقوامی اتحادیوں نے ہم تک پہنچائے ہیں۔‘‘
تاہم طالبان اس عمل میں کابل حکومت کی اہمیت کو مسلسل نظرانداز کرتے ہیں۔ دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے افغان حکومت کے وفد کو دوحہ آنے کے لیے دعوت نہیں دی۔ ان کے بقول، ”اگر امریکا نے افغان حکومت کے وفد کو مدعو کیا ہے تو ہمیں اس سےکوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
طالبان کے مذاکراتی وفد میں شامل سہیل شاہین نے مزید بتایا، ”ہم امریکا کے ساتھ معاہدے میں طے شدہ لائحہ عمل کے مطابق آگے بڑھیں گےجو کہ واضح ہے۔ ہم پہلے معاہدے پر دستخط کریں گے، جس کے بعد اعتماد سازی کا مرحلہ طے کیا جائے گا۔ اس دوران، افغان جیلوں میں ہمارے پانچ ہزار قیدی، اور ایک ہزار افغان حکومت کے قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ ان اقدامات کے بعد ہی ایک انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔‘‘