دورہ امریکہ ۔۔خدشات اور توقعات

Nawaz Sharif US Tour

Nawaz Sharif US Tour

تحریر: آصف خورشید رانا : اسلام آباد
ان دنوں ذرائع ابلاغ میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے دورہ امریکہ کی بازگشت سنی جا رہی ہے دفتر خارجہ نے دورہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم 20 سے 23 اکتوبر تک چار روزہ دورہ کریں گے جہاں امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ ،آپریشن ضرب عضب ، افغانستان کی موجودہ صورتحال اور علاقائی صورتحال پر بات چیت ہو گی ۔مختلف ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ دورہ امریکہ کے دوران پاک امریکہ نیوکلئیر سول ڈیل پر بھی بات چیت متوقع ہے۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان میں مختلف اتار چڑھاﺅ دیکھنے میں ملیں گے تاہم تاریخ کی کتاب میں تلخ یادوں پر مشتمل اوراق کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن میں ایک مخصوص لابی اس دورے کو ناکام بنانے کے لیے بھی سرگرم ہو چکی ہے۔

موجودہ صورتحال میں یہ دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے ایک طرف طالبان کی جانب سے قندوز پر قبضہ کے ذریعے اپنی طاقت کے کامیاب مطاہرے کے بعد امریکی صدر باراک اوباماکو افغانستان سے امریکہ فوجیوں کے انخلاءکے منصوبہ میں تبدیلی کا اعلان کرنا پڑا جس کے مطابق آئندہ برس کے دوران افغانستان میں ہزار کے قریب امریکی فوجی موجود رہیں گے ۔ جبکہ دوسری جانب باراک اوباما نے پاکستان کے اس موقف کی بھرپور تائید بھی کی ہے کہ افغان مسئلہ کا واحد حل مذاکرات ہے اور کہا ہے کہ پاکستان سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خود دورہ امریکہ کے دوران نواز شریف سے اس مسئلہ پر بات کریں گے۔

افغانستان میں طالبان کا دوبارہ ابھرنا عالمی طاقتوں کے لیے پریشان کن ہے ۔پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں استحکام اور امن کے لیے تمام کوششوں کی بھرپور حمایت کی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے مختلف فریقین کے درمیان مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے میں خاصی محنت کی ہے جسے بھارتی لابی نے ناکام بنانے کی کوشش کی ہے ۔ افغانستان میں طالبان ایک حقیقت ہیں جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اس حقیقیت کو امریکہ بھی تسلیم کر چکا ہے اور قندوز کے بعد غزنی پر طالبان کے بھرپور حملے نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ افغان طالبان میں پھوٹ پڑنے کی تمام خبریں بے بنیاد ہیں ۔

Afghanistan

Afghanistan

افغانستان کی موجودہ صورتحال اور پاکستان کے کردار کی اہمیت کے باوجود دورہ امریکہ کے دوران جن مسائل کو اولیت دی جارہی ہے وہ پاک بھارت تنازعات ہیں ۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں وزیر اعظم کی جانب اقوام متحدہ میں بھارت کے ساتھ تمام تنازعات کے حل کے لیے پیش کردہ چار نکاتی فارمولے کو مثبت انداز سے دیکھا جا رہا ہے جس پر بھارتی لابی کافی پریشان نظر آ رہی ہے جبکہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان نیوکلیئر سول تعاون کی بازگشت بھی سنی جارہی ہے ۔واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون میں یہ بھی دعو یٰ کیا گیا ہے کہ سول جوہری معاہدے کے لیے پاکستان کوجوہری میزائل رینج میں کمی کا کہا جائے گااور پاکستان اپنے میزائل کو ایک مخصوص رینج سے زائد نہ رکھنے پر راضی ہو جائے گا۔

اس ڈیل کے بدلے میں امریکہ پاکستان کو نیوکلیئر سپلائیر گروپ میں شامل کرنے کی حمایت کرے گا ۔ مغربی ذرائع ابلاغ پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ہمیشہ بھارتی لابی اور میڈیا کے زیر اثر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جوہری پروگرام کے حوالے سے منفی باتیں گردش کرتی ہیں دوسری طرف وائٹ ہاﺅس ترجمان نے پاک امریکہ جوہری سول معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نواز شریف سے ہتھیاروں کے تحفظ پر بات کی جائے گی جبکہ نیو یارک ٹائمز نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محدود کرانے کے لیے کوشاں ہے ۔ اسی طرح کا مطالبہ ایک امریکی ادارے ”سٹمنز“ کی رپورٹ میں بھی کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو نہ صرف اپنے میزائل رینج میں کمی کرنی چاہیے بلکہ بھارت کی جانب دیکھے بغیر سی ٹی بی ٹی پر دستخط بھی کر دینے چاہیے۔

پاکستان کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور میزائل رینج کو کم کرنے کے حوالے سے خبریں اور مغربی میڈیا کو کوششیں کافی تشویشناک ہے اگرچہ پاکستان کبھی ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شامل نہیں رہا بلکہ چند ماہ پہلے یہ یقین دہانی بھی کروا چکا ہے کہ وہ خطے میں جوہری دھماکے کرنے میں پہل نہیں کرے گا ۔واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے درمیان سیکیورٹی، اسٹرٹیجک استحکام اور جوہری عدم پھیلاﺅ کے حوالے سے قائم ورکنگ گروپ کے درمیان مذاکرات کے بعد جاری کردہ بیان میں پاکستان کی جانب سے سختی سے ان تجاویز کی مخالفت کی گئی جس میں یکطرفہ طور پر اس کے جوہری اثاثوں میں کمی لانے کا کہا گیا اور روایتی ہتھیاروں میں ہندوستان کے ساتھ عدم توازن میں کمی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیاتھا۔

Negotiation

Negotiation

تاہم ان مذاکرات کے دوران پاکستان نے واضح کیا تھا کہ وہ قابل اعتبار کم سے کم دفاعی صلاحیت کے ساتھ اعتماد سازی کے عمل کو بڑھانے اور مسلح تصادم کے خطرے کو کم کرنا چاہتا ہے۔ان حالات میں جبکہ دورہ ابھی شروع نہیں ہوا منفی خبروں کے ذریعے غلط فہمیاں پھیلانے پر پاکستانی قوم میں بھی بے چینی پائی جارہی ہے اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا خارجہ آفس دوٹوک موقف پیش کرے کیونکہ قوم کسی قیمت پر بھی اپنے جوہری پروگرام پر کسی قسم کی بھی پابندیاں قبول نہیں کرے گی۔

یہ دورہ پاک بھارت تنازعات کے حوالہ سے بھی کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ پاکستان لامحالہ اس دورے کے دوران پاکستان میں بھارتی مداخلت ، علیحدگی پسند گروپوں کی بھارت کی جانب سے سرپرستی اور ایل او سی پر مسلسل اشتعال انگیزی اور فائرنگ کا مسئلہ بھی بھر پور طریقہ سے اٹھانا چاہیے ۔مسئلہ کشمیرپاک بھارت کے درمیان بنیادی تنازعہ ہے ۔اقوام متحدہ میں پیش کیے جانے والے چار نکاتی فارمولے کو کشمیری قیادت کی بھی تائید حاصل ہے اور پاکستان کی جانب سے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیردوبارہ اٹھانے سے کشمیری قیادت کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے اس لیے پاکستان کو امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں امریکہ پر زور دینا چاہیے کہ وہ بھارت پر مسئلہ کے حل کے لیے دباﺅ بڑھائے۔

پاکستان نے ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی کر رہا ہے لیکن مغربی سرحدکے پار دہشت گرد ابھی بھی سرگرم ہیں اس لیے پاکستان کو اب امریکہ سے ”ڈومور“ کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔ یہ دورہ پاک امریکہ تعلقات میں اعتماد کی کمی کو کس حد تک پورا کرنے میں معاون ثابت ہو گا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا تاہم پاکستان اس وقت دنیا کی اہم ضرورت بن چکا ہے اور ماضی کی نسبت بہتر پوزیشن میں ہے لہٰذا پاکستانی قیادت کو انتہائی سنجیدگی سے تمام معاملات طے کرنا ہوں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ ثمرات کو سمیٹا جا سکے۔

Asif Khurshid Rana

Asif Khurshid Rana

تحریر: آصف خورشید رانا : اسلام آباد