واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تین روز پیشتر سات مسلمان ملکوں سے تعلق رکھنے والے باشندوں کی 90 روز تک امریکا میں داخلے پر پابندی اندرون اور بیرون ملک شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے سات مسلمان ملکوں کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کے ایگزیکٹو آرڈر کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے فیصلے کا ہدف مسلمان نہیں۔
اپنے ایک بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا میں داخلے پر پابندی کے فیصلے کو ذرائع ابلاغ میں غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ میں وضاحت کرتا ہوں کہ اس پابندی کا مقصد مسلمانوں پر پابندیاں عاید کرنا نہیں ہیں۔
امریکا میں کسی ملک کے باشندوں کے داخلے پر پابندی کا تعلق کسی مذہب کے ساتھ نہیں بلکہ دہشت گردی اور امریکا کی سلامتی کے تناظر میں لگائی گئی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر 90 دن کے بعد امریکا کی سلامتی کا نظام وضع ہوگیا تو پابندیوں کا سامنا کرنے والے ملکوں کے باشندوں کے لیے امریکا کے ویزے بحال کر دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایران، عراق، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے باشندوں کے امریکا میں داخلے کا فیصلہ صرف ان کا نہیں بلکہ ان ملکوں کو پچھلی حکومت بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل کر چکی تھی۔
انہوں نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ سنہ 2011ء میں سابق صدر باراک اوباما نے بھی عراقی پناہ گزینوں کے امریکا میں داخلے پر چھ ماہ کے لیے پابندی عاید کردی تھی۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دنیا میں 40 سے زاید اور بھی مسلمان ملک دنیا میں موجود ہیں۔ ان کے باشندوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی نہیں لگائی گئی۔