امریکی امداد یا معیشت پر ڈاکہ

USA Aid

USA Aid

یہ سوال زبان زد عام ہے کہ وہ کونسے عوامل ہیں جن کے تحت ایک بڑی طاقت چھوٹے اور ترقی پذیر ملک کو امدا فراہم کرتی ہے؟ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ پوری دنیا ایک بہت بڑی منڈی ہے اور یہاں چھوٹے چھوٹے ممالک کسی بھی بڑی طاقت کے سامنے بکائو مال کی حیثیت رکھتے ہیں کمال کی بات یہ ہے کہ جب کوئی چھوٹا ملک امریکہ جیسی بڑی طاقت سے مدد لیتا ہے تو اُس سے کچھ ایسے معاہدے کرتا ہے جس سے اُس کی سالمیت اور استحکام کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور وہ غایت و بے بسی کے عالم میں امریکہ جیسی طاقت کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہو جاتا ہے Aid یعنی امداد تیسری دنیا کے غریب ممالک کی اہم ضرورت بن ہے کیونکہ تیسری دنیا کے غریب ممالک اسے ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کرنے کیلیئے ناگزیر تصور کرتے ہیں جنگ عظیم اول اور دوئم کے دوران سب سے زیادہ امداد یورپی ممالک کو دی گئی جنگ عظیم اول سے قبل ”انگلستان پولیس مین آف دی ورلڈ ”کہلاتا تھالیکن جنگ عظیم دوئم کے بعد انگلتان سمیت فرانس، جرمنی، اٹلی، روس اور ایشیا کے متعدد ممالک تباہ ہو کر رہ گئے اگرچہ برطانیہ اور اُس کے اتحادیوں نے جنگ جیت لی مگر اسقدر تباہی ہوئی کہ کچھ باقی نہ بچا اس دوران امریکہ ہی ایک ایسا واحد ملک تھا جہاں تباہی کے آثار بہت کم تھے کیونکہ نہ تو وہاں لڑائی ہوئی اور نہ ہی بمباری، یہاں پر فیکٹریاں بھی چلتی رہیں۔

لوگوں کو روزگار بھی ملتا رہا امریکی نے بہت جلد اپنے آپ کو اس قابل کر لیا کہ وہ دوسرے ممالک کو سامان بیچنے کے علاوہ اُن کی مدد بھی کرے مارچ 1947ء میں برطانیہ نے امریکہ پر واضح کیا کہ وہ اب دنیا میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتا لہٰذا روس کو قابو میں رکھنا ضروری ہے امریکہ نے سوشلزم کے خاتمہ، مشرق وسطیٰ سے تیل کے ذخائر پر تسلط جمانے اور غریب ممالک کی مالی و فوجی امداد کرنے کی ذمہ داری بخوشی قبول کر لی امریکی صدر ٹرومیں کے ذریعے 400ملین ڈالر کی امداد یونان کو دی گئی۔

اس کے علاوہ ترکی چونکہ جغرافیائی حوالے سے ایک اہم ملک تھا اسلیئے اُسے بھی امداد دی گئی جون 1947میں امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ جنرل جارج مارشل نے مارشل پلان کے تحت یورپی ممالک کو بیس بلین ڈالر امداد دینے کا اعلان کیا تاکہ جنگ عظیم میں ہونے والے نقصان کا ازالہ ہو سکے کمیونزم اور شولزم کو روکنا امریکہ کی دیرینہ خواہش تھی چنانچہ روس کے سرحدی ممالک کی مالی اور فوجی امداد کرنا اُس نے اپنا فریضہ جانا 14اگست 1947ء کو جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک نئے پر عزم ملک کی حیثیت سے اُبھرا عالمی برادری کے بہت سے آزادی پسند ممالک نے اسے خوش آمدید کہا اور اُس کے استحکام کیلئے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہر ترقی یافتہ ملک نے اس کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اپنے مقاصد پورے کرنے کیلئے اس کو اپنے حلقہ اثر میں لانے کی کوشش کی جس میں امریکہ کی کوشش بار آور ثابت ہوئی 1950ء میں امریکی صدر ٹرومیں نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو امریکہ کے سرکاری دورہ کی دعوت دی جب لیاقت علی خان امریکہ جارہے تھے تو کسی صحافی نے پوچھا کہ اس دورے کا مقصد کوئی معاشی امداد تو نہیں تو لیاقت علی خان کا جواب تھا I am not going hatin hand میں ہاتھ میں کشکول لیکر نہیں جارہا امریکہ میں ان کا والہانہ استقبال ہوا اس طرح لیاقت علی خان کے دور میں امریکی کی بے دام غلامی ہمارے گلے کا طوق بنی چین میں اشتراکیت کو روکنے کیلئے امریکہ نے چیانگ کائی شیک کو اربوں ڈالر کی فوجی واقتصادی امداد دی لیکن مائوزے تنگ کی عوامی یلغار اس امداد کو بہا کر لے گئی۔

Pakistan

Pakistan

عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے معرض وجود میں آتے ہی امریکہ چین دشمنی کا آغاز ہوا اب امریکہ کی خوہش یہ تھی کہ روس کے ساتھ چین کو بھی گھیرے میں لے لیا جائے امریکہ نے صورت حال دیکھتے ہوئے اور پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو سو ملین ڈالر کی امداد فراہم کی آزادی کے بعد بھارت نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں برصغیر پاک و ہند کو ایک ہی یونٹ سمجھا جائے پاکستان نے اس مفروضے کو غلط ثابت کرنے کیلئے ایسے حلیف تلاش کرنا شروع کر دیئے جو اسے بھارت کی جانب سے لاحق خطرات سے تحفظ اور بھارت کے ساتھ تنازعات کے تصفیہ میں اعانت کی یقین دہانی کراسکیں۔

1969ء میں امریکی سینیٹر vanden berg نے سینیٹ میں ایک قرار داد پیش کی جس میں کہا گیا کہ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ ایک سے زیادہ ملکوںسے ملکر ایسے فوجی اوردفاعی معاہدے کرے جس سے وہ اپنی حفاظت کر سکے اور کمیونزم کو پھیلنے سے روک سکے چنانچہ اس قراردا کے پیش نظر امریکہ نے آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ ،اور فلپائن کے ساتھ کئی فوجی و دفاعی معاہدے کیئے مئی 1954ء میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ Mutual security pactپر دستخط کیء جس کے تحت امریکہ نے پاکستان کو اسلحہ ،جنگی سامان ،اور دوسری امداد مہیا کرنے کی پیش کش کی اس کے بدلے پاکستان نے یقین دلایا کہ وہ اپنی ضروریات کے علاوہ تمام خام مال صرف امریکہ کو ہی دے گا اور امدا کے ذریعے حاصل ہونے والا دفاعی سامان کسی دوسرے ملک پر جارحیت کیلئے ہرگز استعمال نہیں کرے گا اس کے بعد پاکستان سیٹو معاہدہ میں شریک ہوا 1953ء میں امریکہ نے PL-480کے نام سے ایک نیا قانون پاس کیا اس دور میں پاکستان میں گندم کی کاشت بہت کم تھی اور ملک میں گندم کا قحط بھی شروع ہوا جس پر امریکہ نے پاکستان کو گندم کی امداد کی پیش کش کی جس پر پاکستان نے کہا کہ ہم اس کی ادائیگی ڈالروں میں نہیں کرسکتے چنانچہ امریکہ نے کہا کہ ادائیگی پاکستانی کرنسی کے مطابق کردی جائے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی کرنسی امریکہ کے کس کام کی؟ حقیقت میں یہ پیسہ پاکستان میں قائم امریکی بنکوں میں رکھا گیا تاکہ وہ جس وقت چاہے مارکیٹ میں پیسہ پھینک کر پاکستانی معیشت کو تباہ کر سکے جس کے ذریعے افراط زر بھی پیدا ہو اور مہنگائی میں اضافہ کے امکانات بھی تھے مقصد یہ تھا کہ امریکہ کے پاس اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے اُس ملک کی کرنسی ہونا لازمی ہے تاکہ جلوس نکلوانے، توڑ پھوڑ کرانے میں پیسہ کا استعمال کیا جا سکے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ببانگ دہل یہ کہا کہ امریکہ پیسے دیکر ایسے عناصر کو ساتھ ملا لیتا ہے جو بہت سے ممالک میں سارے نظام کو تہس نہس کردیتے ہیں PL-480کا سب سے خوفناک امر یہ تھا کہ امریکہ اس مداد کے ذریعے کسی بھی ملک کی اندرونی اور بیرونی سیاست میں براہ راست مداخلت کرنے لگا اس معاہدے کے تحت ملنے والی امداد نے پاکستان کو اپنی گرفت میں لے لیا اور پاکستانی حکمران اُس کے اشاروں پر ناچنے لگے اگر اس دوران امریکہ کی مرضی کے خلاف کوئی بات کرتا تو اُسے ملک بدر کردیا جاتا یا پھانسی دے دی جاتی 1953ء میں ایران کے شاہ کو جمہوریت پسند وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کی قیادت میں ملک سے نکالا گیا اور پھر وہ بھاگ کر اٹلی چلا گیا مگر امریکن سی آئی اے نے غنڈوں کو پیسے دیکر تہران میں فساد برپا کر ادیا بعد ازاں فوج اور عوام کو پیسے دیکر شاہ ایران کو واپس بلوایا اور وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق حسین کو گرفتار کرادیا تاریخ گواہ ہے پاکستان میں 1958ء میں امریکی سفیر کی اجازت سے حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بنے مشرقی پاکستان کی علیحدگی، ایوبی مارشل لاء، بھٹو کی پھانسی ،77ء کا مارشل لاء ،سی 130 میں جنرل ضیاء کی موت میں بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ شامل تھا اُس دور میں امریکی سفیر کو وائسرائے کہا جاتا تھا پاکستان میں ایک امریکی سفیر مسٹر میکناگھی نے مشرقی پاکستان کی جداگانہ معیشت اور خود مختار حیثیت واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس سفیر کے خلاف پاکستانی عوام نے زبردست احتجاج کیا اور اُسے 24 گھنٹوں میں پاکستان چھوڑنا پڑا 70ء کے عام انتخابات سے قبل امریکی سفیر مسٹر فا لینڈ مشرقی پاکستان کے خفیہ دورے کرتے رہے اور شیخ مجیب الرحمان سے خفیہ ملاقاتیں کیں 73ء میں ہنری کسنجر نے امریکی کانگریس کی امور خارجہ کی کمیٹی کے رو برو بیان میں یوں اعتراف کیا”امریکہ بھی بنگلہ دیش بنوانے کا حامی تھا ”دسمبر 71ء میں بھارتی جارحیت کے دوران امریکی طیارہ بردار بحری بیڑہ ”انٹر پرائزز”کی خلیج بنگال کی جانب پراسرار روانگی بلکہ پراسرار مشن کے بارے میں یہ بات آسانی سے سمجھ آتی ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کو روس اور بھارت سے بچانے ہرگز نہیں گیا تھا۔

1956-61میں جب امریکی معیشت کی حالت خراب ہوئی تو عوام نے شور مچانا شروع کر دیا کہ دنیا کو ایڈ دینا بند کرو اور امریکی معیشت کو سنبھالو اس وقت کے امریکی صدر جان کنیڈی نے کہا ”امریکہ کی جانب سے دی جانے والی امداد 85 فیصد واپس آجاتی ہے لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں ہم دوسرے ممالک کو امداد دیکر گھاٹے کا سودا نہیں کرتے ”پاکستان نے امریکہ سے بے شمار معاہدے کیئے تاکہ زیادہ سے زیادہ امداد حاصل ہو لیکن جلد ہی پاکستان پر ظاہر ہو گیا کہ امداد دینے کیلئے معاہدوں کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ ممالک جو معاہدے نہیں کرتے امریکہ اُن کی زیادہ مدد کرتا ہے ایشیاء میں بھارت، افریقہ میں نائجیریا اور مصر یورپ میں یوگو سلاویہ کو غیر جانبدار ملک ہونے کے باوجود زیادہ امداد ملتی تھی امریکہ میں 1969ء میں امریکی سینیٹ میں دوائیوں کی خریدو فروخت پر بحث ہوئی جس پر سینیٹر کینیڈی نے انکشاف کیا ”امریکی فرم پاکستان میں دو ہزار فیصد منافع پر دوائیاں بیچتی ہیں۔

Dollar

Dollar

ان قرضوں پر سود کی شرح قرضوں سے بڑھ چکی ہے حالانکہ یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان جیسے ملک قرضوں کو ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے سود ہے کہ بڑھتا جارہا ہے اور پاکستانی معیشت امریکی قرضوں کے چنگل میں پھنس چکی ہے وزیر اعظم کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران اڑھائی ارب ڈالر کی امداد اعلان ہوا قیام پاکستان سے لیکر 2012 تک امریکہ نے پاکستان کو 64 برسوں میں 68ارب ڈالر امداد دی لیکن اس ایک ارب ڈالر فی امداد کے باعث پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کیا گیا امریکی حکام ان 64 برسوں میں جس ملک کا دورہ کرتے رہے وہاں پاکستانی امداد کا نام ضرور لیتے ان چونسٹھ برسوں میں پاکستان نے جتنا پایا اس سے کہیں زیادہ امریکہ کی جنگ میں 100 ارب ڈالر کا نقصان اُٹھایا اس 68 ارب ڈالر کی امداد میں سے 42 ارب ڈالر معیشت کی بحالی کینام پر اور 26 ارب ڈالر فوجی امداد کی صورت میں ملے 1948 ئ میں جب پہلی بار 7 لاکھ 70 ہزار ڈالر پاکستان کو دیئے گئے تو ساتھ ہی یہ شرط عائد کی گئی پاکستان کے ہوائی اڈے سوویت یونین کی جاسوسی کیلئے استعمال کیئے جائیں گے۔

نواب لیاقت علی خان کا انکار امریکہ کی ناراضگی کا موجب بن گیا 1951 میں جب لیاقت علی خان کی شہادت کا واقعہ رونما ہوا تو یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا 1964 تک اس میں اس قدر اضافہ ہوا رواں سال اس امداد کی مد میں اڑھائی ارب ڈالر ملے ہیں جنرل ایوب خان نے اپنے دور حکومت میں امریکہ کو سوویت یونین کی جاسوسی کیلئے سرزمین پاکستان میں فوجی اڈے مہیا کئے 1965کی جنگ کے بعد اس میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی 1974میں یہ ہوا کہ وطن عزیز کے جوہری پروگرام کو بنیاد بنالیا گیا اور اقتصادی پابندیاں ہمارا مقدر ٹھہریں 1979 میں امداد کا دروازہ بند ہو چکا تھا مگر دسمبر 1979 میں جب سو ویت فوجوں نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پاکستان کی اہمیت دوبارہ اجاگر ہوئی اور 1982 میں امداد کا سلسلہ پھر شروع ہوا 1983 سے1988 تک یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ سالانہ ایک ارب ڈالر تک امداد ملی افغانستان سے سوویت فوجیں نکلیں تو امریکہ نے بھی منہ موڑ لیا اکتوبر 1990 میں پاکستان پھر پابندیوں کی زد میں آیا نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو امریکہ کو پاکستان یاد آیا 2000سے 2012 تک یہ امداد 25ارب ڈالر تک بڑھی اس کے برعکس دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے سے پاکستان کو 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا اب جب امریکہ سے نیا سود لینا پڑتا ہے تو پچھلا قرضہ اور سود پہلے کاٹ لیا جاتا ہے ایک قباحت یہ ہے کہ قرض دیتے وقت یہ شرط لاگو کر دی جاتی ہے کہ پاکستان اس قرض سے کوئی فیکٹری یا صنعت نہیں لگا سکتا اس قرض اور امداد کے باعث پاکستان میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہو چکا ہے۔

صرف جس کے اپنے مفادات اس قرض سے وابستہ ہیں یہ ایک خاص قسم کی کلاس ہے جس کو فائدہ پہنچ رہا ہے یہ مفت خور طبقہ parasite(طفیلیوں )کی طرح پیدا ہوا یہی طبقہ امریکی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے ملک و ملت کی بجائے امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے ااسی طبقہ نے آج تک پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دیا اور وطن عزیز نام نہاد امداد اور سود خوری کے جال سے آزاد نہیں ہو سکا ان حالات و واقعات کے پیش نظر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکہ کسی طرح ہمارا ہمدرد نہیں بلکہ ہماری معیشت پر بیٹھا ہوا ایک ڈاکو ہے۔ تو پھر یہ کہنا درست ہے کہ Aid is not aid but raid on our economy

M. R. Malik

M. R. Malik

تحریر : ایم آر ملک