ماسکو (جیوڈیسک) روسی صدر نے امریکاپر اپنے طیارے کا روٹ ترکی کو بتا نے کا الزام لگاتے ہوئےکہاہے کہ جس وقت طیارے کو ایک مقام سےگزرناتھا،عین اسی لمحے مارگرایا گیا،کیا روس نےاس لیےامریکا کو معلومات فراہم کی تھیں؟ایسا واقعہ دوبارہ ہوا تو امریکا سے تعاون خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
روسی جنگی طیارہ گرانے پر صدر پیوٹن ترکی پر برہم ہوگئے ،ترک صدر طیب اردوان کا کہنا ہے کہ جنگی طیارہ گرائے جانے کے بعد سےروسی صدر فون کال کا جواب نہیں رہے ہیںمعلوم ہوتا کہ طیارہ روس کا ہے تو مختلف ردعمل ظاہر کرتے، واقعے کے بعد روس نے ترکی کے ساتھ تمام فوجی رابطے بھی ختم کردیے ہیں ۔
روسی وزارت دفاع نے ترکی سے ہاٹ لائن پر معلومات کے تبادلے سمیت تمام فوجی رابطے ختم کرنے کا باضابطہ اعلان کردیا، ترکی کی غذائی اور دوسری مصنوعات کی درآمد پر بھی پابندی لگا دی گئی، روسی شہریوں کو ترکی کا سفر نہ کرنے اور ترکی میں موجود اپنے شہریوں کو واپس آنے کی ہدایت کردی۔
ترکی نے بھی روس میں ترک سفارتخانے کے باہر مظاہرے پر روسی سفیر کو طلب کرلیا، اس سے پہلے ترک صدر رجب طیب اردوآن کا کہنا تھا کہ روس سے محاذ آرائی نہیں چاہتے لیکن طیارہ گرانے پر روس سے معافی نہیں مانگیں گے، معافی انھیں مانگنی چاہیے جنہوں نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔
ماسکو میں گفتگو کرتے ہوئے روسی صدر پیوٹن کا کہنا تھا روسی طیارے کو نشانہ بنانے پر معافی نہ مانگ کر ترکی دونوں ممالک کے تعلقات بند گلی میں لے جا رہا ہے۔انہوں نے کہا یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ترک حکام کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ طیارہ روس کا تھا اور شام سے ترک سرحدی علاقوں میں تیل کی غیرقانونی سپلائی ہورہی ہے۔صدر پوٹن نے کہا جس ملک کو روس دوست سمجھتا تھا اس سے ایسی حرکت کی توقع ہرگز نہ تھی۔