واشنگٹن (جیوڈیسک) دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے جاسوسی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور اسی تیزی سے ان کارروائیوں سے پردہ بھی اٹھتا جا رہا ہے۔ اسی دوران امریکا میں مقیم ایک 31 سالہ پاکستانی نوجوان حماد اکبر نے بھی جاسوسی کرنے کی ٹھانی مگر ایک ایپ کی مدد سے۔
انہوں نے سمارٹ فونز کے لئے ایک ایسی ایپ تیار کی جس کی مدد سے دوسرے افراد کے موبائل فون پر موجود معلومات تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے یا دوسرے لفظوں میں دوسروں کی جاسوسی کو آسان بنایا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی اس ایپ کی تشہیر اور فروخت بھی شروع کر دی۔ تاہم ان کا یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکا اور انہیں امریکی حکام نے فوجداری الزامات کے تحت گرفتار کر لیا۔
امریکی دفتر انصاف کے مطابق لاہور سے تعلق رکھنے والے حماد کی گرفتاری اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کیونکہ اس سے قبل کبھی کسی کو موبائل فون کی اس طرح کے ایپ کی فروخت کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ حماد اکبر کی کمپنی ورجینیا کے ڈیٹا بیس سینٹر استعمال کر رہی تھی۔ اس ایپ کی مدد سے ایپل اور اینڈرائڈ موبائل فون پر ہونے والی کالز اور چیٹ کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔
حکام نے بتایا کہ کمپنی نے یہ ایپ ان افراد کے لئے تیار کی جنہیں شک ہوتا ہے کہ ان کا جیون ساتھی یا پارٹنر انہیں دھوکا دے رہا ہے اور اس ایپ کی تشہیر بھی اسی وجہ سے کی جا رہی تھی۔ امریکی حکام نے حماد اکبر پر سازش اور خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرنے والا آلہ فروخت کرنے کی فرد جرم عائد کی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں اسی طرح کے مزید الزامات کا بھی سامنا ہے۔ انہیں گزشتہ ہفتے لاس اینجلس میں حراست میں لیا گیا تھا اور اسی ہفتے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
عدالت کے حکم پر اس کمپنی کی ویب سائٹ بھی بند کر دی گئی ہے۔ ریاست کیلی فورنیا کی نائب اٹارنی جنرل لیزلی کالڈویل کے بقول جاسوسی کے آلات فروخت کرنا صرف غیر ذمہ داری ہی نہیں بلکہ ایک جرم بھی ہے۔ اس ایپ کو خریدنے والوں کی رسائی صرف دیگر افراد کی کالز، ای میلز، ایس ایم ایس پیغامات تک ہی نہیں رہتی بلکہ دوسروں کی وائس میلز، ایڈریس بک، تصاویر اور ویڈیوز تک بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔