تحریر: رانا ظفر اقبال ظفر امریکہ کے صدارتی انتخابات کا نتیجہ جو بھی نکلے ایک بات یقینی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی نامزدگی امریکی تاریخ کا انوکھا واقع ہو گا جس کی بازگشت صدیوں سنائی دیتی رہے گی اگر یہ کہا دیا جائے کہ ٹرمپ کی صدارتی مہم نے امریکہ کا سیاسی اور سماجی نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے تو بے جا نہ ہو گا امریکہ کے سیاسی میدان میں دیکھیں تو ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین اور مداحوں دونون میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی ہے اور دونوں ہی ایک جیسے پرجوش سرگرم ہیں ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو انہیں امریکہ کے لیے باعث شرم قرار دیتے ہیں دوسری جانب ٹرمپ کے کروڑوں حامی سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ کو پھر سء عظیم طاقت بنانے کی آخری امید ہیں ان دونوں انتہائوں کے درمیان ایک بات مشترک ہے کہ دونوں سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا صدارتی امیدوار پہلے کبھی نہیں آیا ٹرمپ نے تجارت ،امیگریشن،بین القوامی معاہدوں،اسلحے۔جنگ اور روس امریکہ تعلقات کے بارے میں نہ صرف وسیع تر امریکی روایات بلکہ خود اپنی ہی جماعت ،ری پبلکن پارٹی کی پالیسوںسے انحراف کیا یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کبھی اتنے سنئیر راہنمائوں نے اپنی ہی جماعت کے امیدوار کی اس قدر کھلم کھلا مخالفت نہیں جس قدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہو رہی ہے ۔
امریکی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ،پگڑیا ں اچھالنے اور الزامات لگانے میں کسی دوسرے ملک سے کم نہیں رہیں لیکن ایک بات ضرور دیکھنے میں آئی کہ کسی جماعت اور راہنماء نے نظام پر انگلی نہیں اٹھائی ۔ٹرمپ نے سیاسی اور عدالتی نظام،اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی بدعنوان قرار دیکر اپنی راہ ضرور الگ بنائی جس پر کئی مبصرین کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ترمپ کامیاب ہوں یا نہ ہوں بات یہی نہیں رکے گی کیونکہ جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو چکا ہے کیونکہ ٹرمپ نے نسل پرستانہ ،زینو فوبیا،اجنبیوں سے نفرت پر مبنی اسلامو فوبیا پر مبنی ،افریقی امریکیوں کے خلاف حتکہ نظام کے خلاف جو بیانات دیے ہیں اب وہ ہاریں یا جتیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عوام مشتعل ہوچکی ہے امریکی جمہوریت کی روایات ہے کہ ہارنے والا جیتنے والے کو تقریر کر کے مبارکباد دیتا ہے مگر ٹرمپ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ اگر اسے شکست ہوتی ہے تو اپنی شکست کو تسلیم نہیں کریں گے ممکن ہے کہ وہ اپنی شکست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں اگر ایسی صورٹھال پیدا ہو جاتی ہے تو انکا اگلا لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے وہ عدالت جائیں گے یا پھر اپنے کروڑوں حامیوں کو اکسانے والا بیان دیں گے اگر ایسا ہوا تو وہ بھی امریکی جمہوریت میں پہلا واقع ہو گا جس کے بعد روایت بن سکتی ہے کہا جا رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر ٹرمپ ہا گیا تو اسکے حامی سڑکوں پر نہ آ جائیں کیونکہ ٹرمپ لوگوں کے اندر نفرت پیدا کر چکا ہے جسے ختم کیسے کیا جا سکتا ہے۔
Election
انتہاء پسندانہ تشدد کے تحقیق کار جوناتھن مورگن اپنی ویب سائیٹ پر لکھتے ہیں کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ لوگوں سے کہتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہو گی تو لوگ اسکی بات پر یقین کرتے ہیں مورگن نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے دھاندلی کے الزامات پر مبنی پوسٹوں کی حمایت کرنے والے سینکڑوں ایسے افراد کی نشاندہی کی ہے جو مختلف مسلح گروپوں سے وابستہ ہیں ان میں سے ایک ایسے ہی شخس نے فیس بک پر لکھا کہ ہیلری کلنٹن امریکہ کو مسلمانوں سے بھرنا چاہتی ہے اگر وہ جیت گئی تو پھر وہ انقلاب کا وقت ہو گا باتیں بہت ہو گئیں بلاگوں میں سختی دکھانے کا وقت گزر گیا اب اصل زندگی میں سخت ہونے کا وقت ہے ۔امریکی ادارے ،ایس پی ایل سی لا،سنٹر کی ایک رپورٹ میں ٹرمپ کی تقریر و بیانات کا طلبہ پر اثرات کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ فیس بک،انسٹا گرام،اور سنیپ چیٹ کے اس دور میں وہ امریکی نوجوان جو سیاست سے بڑی حد تک بیگانہ رہتے تھے اب دو تہائی سے زیادہ اساتذہ کے طلباء نے تشویش ظاہر کی ہے کہ اگر ٹرمپ صدر بن گئے تو انکے اور انکے خاندان کا کیا بنے گا ؟
ان طلباء کی اکثریت کا تعلق سیاہ فام برادریوں سے ہے یا پھر مہاجرین کے خادانوں سے ہے اس سروے کے مطابق سیاہ فام طلبہ کی بڑی تعداد کو خدشہ ہے کہ کہیں انہیں واپس افریقہ نہ بھیج دیا جائے حالانکہ انکے خاندان امریکہ کی آزادی سے پہلے وہاں آئے تھے ۔ااج سے تقریبا دو ہفتے قبل ہیلری کلنٹن کو ٹرمپ پر واضع برتری حاصل تھی لیکن اب پہلے ایف بی آئی کی طرف سے ہیلری کے خلاف ای میلز کھولنے اور پھر اسے یکا یک بند کر دینے سے کنفیوزن پید ہو گئی ہے اب بھی بیشتر مبصرین کا کہنا ہے کہ ہیلری جیت جائیں گی مگر انکی جیت اس قدر یقینی نہیں رہی جس قدر پہلے دکھائی دیتی تھی اگر وہ آٹھ نومبر کو فاتح ٹھہرتی ہے تو تب بھی بعد از انتخابات حالات کے سامنے سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے اگر ٹرمپ ہار کی صورت میں انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیں تو کیا ہو گا ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ عمران خان کی طرح ٹرمپ بھی کسی دھرنے کا اعلان کر دیں ؟؟
Hillary Clinton
کیونکہ ٹرمپ ایک تقریر میں واضع طور پر اشارہ دے چکے ہیں کہ اسلحہ کے حامی کلنٹن کا راستہ روک سکتے ہیں ہیلری نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ وہ لوگوں کو تشدد پر اکسا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔چونکہ امریکہ میں ادارے بہت مضبوط ہیں اس لیے اس بات کا امکان تو نہیں کہ بڑے پیمانے پر ہنگامے ہونگے اور فوج بلانی پڑ جائے گی لیکن یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ شکست کی صورت میں مختلف علاقوں میں مظاہرے ہونگے خاص طور پر نیویارک،جو دونوں امیدواروں کا گڑھ ہے ۔مبصرین کہتے ہیں کہ اگر نیو یارک کی مسافروں سے کھچا کھچ بھری بس میں ٹرمپ کے کسی حامی نے فقرہ کس دیا یا پھر شگاگو کے ڈائون ٹائون میں سیاہ فاموں کی تنظیم ،بلیک لائیوزئیر کے ایک کارکن نے ٹرمپ کے کسی ووٹر کو طعنہ دے دیا تو اس کی چنگاری بھڑک سکتی ہے اگر ایسا ہوا تو یہ امریکی سیاست او ر تاریخ دونوں کے لیے ایک نیا موڑ ہو گا۔
یہ سب قیاس آرائیاں ہی رہیں اور ہیلری کو جتوانت والے مبصرین کی حیرت اس وقت گم ہو گی جب امریکہ کی دو ریاستوں کے ابتدائی رزلٹ سامنے آئے جسمیں ٹرمپ کو تقریبا ستر فیصد ووٹ پڑے اور پھر یہ لیڈ ٹوٹ نہ سکی اور آخر کار ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 45ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں جن کے صدر منتخب ہونے کے بعد جہاں مسلمانوں میں تشویش پائی جا رہی ہے وہاں سیاہ فام اور افریقی بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ ہمارا پڑوسی ملک بگلیں بجا کر خوشی کا اظہار کر رہا ہے ۔آنے والے دنوں میں معلوم ہو گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ مسلمان ممالک کے لیے کیا پالیسی اپناتے ہیں اور امریکہ میں مقیم پاکستانی و دیگر مسلم ممالک کے مسلمان کتنے محفوظ رہیں گے ۔مگر یہ طے ہے کہ امریکی عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے ٹرمپ کو اپنا راہنماء چن لیا ہے اور ٹرمپ نے جو تقسیم کی لکیر امریکی عوام میں کھینچ دی ہے وہ شاید آنے والے وقت میں ختم نہ ہو سکے اور نہ ہی امریکیوں کی نفرت محبت میں تبدیل ہو سکے گی۔