ملک میں صحت عامہ کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے اچھا علاج ایک خواب بنتا جارہا ہے۔ اس ضمن میں حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی ۔جس کی وجہ سے نہ صرف غریبوں کے لئے بلکہ صاحب وسائل کے لئے بھی علاج مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں نجی زمرے کے اسپتال بھاری منافع کمارہے ہیں لیکن حکومت کے اس فیصلے سے عوام ہی متاثر ہوں گے۔ہمارے ملک میں غریبی کی دوسری سب سے بڑی وجہ صحت عامہ ہے۔25،30%لوگ اپنی کم ماہانہ آمدنی کی وجہ سے علاج سے گریز کرتے ہیں۔
جس کے سبب ان کی بیماری سنگین صورتحال اختیار کر لیتی ہے،اسپتال میں داخل ہونے والوں میں سے 40%مریضوں کو اپنے علاج اور علاج کے اخراجات برداشت کرنے کے لئے قرض لینا پڑتا ہے یا اپنی جائداد فروخت کرنا پڑتی ہے ایک اندازے کے مطابق اسپتال میں داخل ہونے والا ہر چوتھا مریض خط افلاس سے نیچے آجاتا ہے.صحت کا شعبہ کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کے ہر شہری کو بنیادی صحت کی سہولتیں فراہم کرے۔پاکستان میں تیز رفتار اقتصادی ترقی کے باوجود چھوٹے بچوں اور حاملہ خواتین کی شرح اموات آج بھی بہت زیادہ ہے۔
ملیریا اور تپ دق کے ساتھ ساتھ دائمی امراض بھی بڑا سماجی مسئلہ اور طبی چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔پاکستان میں 1923 آبادی کے لئے صرف ایک ڈاکٹر ہے جبکہ جرمنی میں 296 ،امریکہ میں 350، برطانیہ میں 469 ،تھائی لینڈ میں 500،جاپان میں 606 ،سنگا پور میں 714 ،برازیل میں 944 اور کوریا میں 951 کی ہر آبادی پر ایک ایک ڈاکٹر ہے۔چین میں ایک ڈاکٹر کے لئے 1063 ،مصر میں 1484 ہے۔ملک میں حکومت صحت عامہ کے لئے مجموعی گھریلو پیداوار کا بہت کم خرچ کر رہی ہے جبکہ نیپال اس مد میں ایک اعشاریہ چھ،چین ایک اعشاریہ آٹھ اور سری لنکا ایک اعشاریہ نوفی صد خرچ کر رہے ہیں۔پاکستان میں صحت عامہ کا نظام عوامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں میڈیکل کالجوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابرہے جہاں سے ہر سال ڈاکٹر بننے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے ہے۔ملک میں بڑھتی آبادی کو دیکھتے ہوئے میڈیکل کالجوں اور میڈیکل طلبا کی تعداد دگنی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ڈاکٹروں، نرسوں اور دانتوں کے ڈاکٹروں کی کمی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ذیادہ تر ڈاکٹرحضرات بیرون ممالک میں کام کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان میں طبی سہولتوں کا حصول اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ عام شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنے علاج معالجے کے لیے کافی مالی وسائل دستیاب ہی نہیں ہوتے۔ اس پس منظر میں یہ سماجی حقیقت بھی بڑی تکلیف دہ ہے کہ ملک میں ہر سال نچلے متوسط طبقے کے تقریبا چار کروڑ شہری غربت کا شکار ہو رہے ہیں۔
ہماری حکومت نے آج تک صحت پر کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا جس سے غریبوں کو ریلیف مل سکے۔سوائے امیروں کی جیبیں بھرنے کے،آج ہمیں اپنی صحت پر اپنی آمدنی کا 75فی صد خرچ کرنا پڑتا ہے جبکہ نیپال میں یہ شرح 71.9فی صد،چین میں 61.2فی صد اور سری لنکا میں 53.8فی صد ہے۔پاکستان میں ہر سال بہت سے مریض صرف غربت کی وجہ سے اسپتال کا خرچ نہیں اٹھا پاتے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ صحت کے شعبے کا یہ حال ہے کہ دیہی علاقوں میں مراکز صحت کی بڑی تعداد عملے اور دواؤں سے محروم ہے۔
شہروں میں بھی چند سرکاری اسپتالوں کو چھوڑ کر بیشتر سرکاری ڈسپنسریوں کی حالت غیرتسلی بخش ہے۔ غریبوں کو گھنٹوں قطاروں میں کھڑے ہو کر معمولی مکسچر حاصل ہوتا ہے۔ بیشتر دوائیں باہر سے خریدنی پڑتی ہیں۔ کئی خیراتی اداروں کی طرف سے اسپتالوں میں داخل مریضوں کے لئے خوراک کی فراہمی کا بندوبست نہ ہو تو خدا جانے ان پر کیا بیتے۔ ملک میں مرکزی اورصوبائی حکومتوں کو اپنی جملہ کوششوں اور وسائل کو مربوط بناتے ہوئے جلد سے جلد صحت کی بہتری کا نظام متعارف کرانا چاہیے، مطلب یہ کہ موجودہ عشرے کے آخر تک ہر پاکستانی شہری کوحکومت کی طرف سے مہیا کردہ مکمل طبی سہولتوں تک رسائی ملنی چاہیے۔
Diabetes
پاکستان میں ہر سال ہونے والی اموات کے تین چوتھائی حصے کی وجہ امراض قلب، نظام تنفس کی بیماریاں، ذہنی امراض، ذیابیطس اور سرطان جیسی دائمی عارضے ہیں جن کے خلاف حکومت کو ایک جامع ایکشن پلان ترتیب دینا ہو گا تاکہ ملک کی پوری آبادی کی طبی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔صحیح وقت پر صحیح کھانا کھانے سے ہم صحتمند رہ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی خوراک میں سبزیوں کی مقدار اور اناج کو بڑھانا ہوگا۔
دودھ بغیر بالائی کے اور کھانے کا تیل استعمال کیا جائے نمک اور چینی کا استعمال کم رکھنا چاہئے تاکہ دل اور گردے کی بیماریوں سے بچا جا سکے۔ خوراک اور طرز زندگی میں تبدیلی لاکرامراض سے بچا جاسکتاہے۔ تعلیم و صحت کے میدانوں میں ترقی کے لئے فنڈز مہیا کرنے، جامع منصوبہ بنانے اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
M A Tabassum
تحریر:ایم اے تبسم (لاہور) EMAIL:matabassum81@gmail.com, 0300-4709102