کراچی میں زہریلی کچی شراب 23 افرادکو نگل گئی،درجن کے قریب افراد دیکھنے ، سننے، بولنے کی قوت کھو بیٹھے اور کتنے ہی افراد زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔جن کی حالت ڈاکٹروں کے مطابق تشویشناک ہے ۔شراب یا دیگر منشیات کے ہاتھوں ہلاکتوں کی خبر نئی ہے اور نہ ہی لیا جانے والا نوٹس ۔کراچی می کچی شراب کی تباہ کاریوں کی یہ خبر یقینا آپ کی نظر سے گزری ہوگی اور آپ نے ہمیشہ کی طرح یہی سوچا ہوگا کہ یہ کون سی نئی بات ہے۔
اس طرح کی خبریں نظر انداز کرنے والی نہیں کیونکہ میں اور آپ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں ۔اسلام میں شراب نوشی سختی کے ساتھ منع ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندر اس زہرکے بنانے ،بیچنے یاپینے پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہ ہے ۔ اگر ہم نے شراب سمیت دیگرجان لیوا منشیات کے استعمال اور خریدو فروخت کے خلاف آوازاُٹھا کر اس لعنت کی روک تھام نہ کی تو کل میرے اورآپ کے جگرگوشے بھی منشیات کی لت میںمبتلا ہوسکتے ہیں۔ جب لوگ کہتے ہیں کہ زہریلی شراب پینے کی وجہ سے اتنے افراد ہلاک ہوگئے ہیں تو مجھے بہت عجیب لگتا ہے ۔
شراب پینے والے فوری طور پر ہلاک ہوجائیں تو شراب کو کچی زہریلی قراردے دیا جاتا ہے ، جب یہی زہر شراب نوشی کرنے والے افرادکودوتین سال بعد موت کی اندھیری وادی میں دھکیلتا ہے تب شراب کوزہریلی کیوںنہیں کہاجاتا ؟کراچی میں پیش آنے والے تازہ ترین واقع میں ہلاک ہونے والے افراد کے ورثا سے میرا سوال ہے کہ جب وہ جانتے تھے کہ شراب پینے سے ماضی میں بھی بہت لوگ ہلاک ہوچکے ہیں تو پھر اُنہوں نے اپنے پیاروں کو شراب یعنی موت کے قریب کیوں جانے دیا؟۔
مان لیا کہ ماضی میں پیش آنے والے واقعات کے ملزمان کے خلاف پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی ہوگی ۔مان لیا کہ شراب سرعام دستیاب ہے ،مان لیاکہ محکمہ پولیس منشیات فروشوں کے ساتھ ملا ہوا ہے ،مان لیاکہ منشیات فروشوں کی پشت پناہی کرنے والے معززین علاقہ وزیروں اور سفیروں کے قریبی ہیں ،یہ بھی مان لیا کہ ملک میں عدل وانصاف نام کی کوئی چیز دستیاب نہیں ،چلو یہ بھی مان لیا کہ حکومت منشیات کی کھلے عام خرید و فروخت کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کرے گی ۔یہ کیسے مان لیا جائے کہ ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ شراب یا دیگر منشیاب کا استعمال کرنے سے موت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوسکتا؟کیا پولیس یا حکومت پر تنقید کرنے سے مرنے والے زندہ ہوسکتے ہیں ؟ ماضی میں بھی شراب پی کر سینکڑوںافراد ہلاک ہوچکے ہیں اور اب اس زہر نے 2درجن افراد کی جان لے لی ہے۔
Police
مزید کی حالت تشویشناک ہے پھر بھی کراچی سمیت پورے ملک میں شراب کی فروخت اور شراب نوشی بدستور جاری ہے ۔ٹھیک ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران اور محکمہ پولیس انتہائی بے حس ہوچکے ہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت یا پولیس نے گھر جاکر اُن افراد کو شراب نوشی کا مشورہ دیاتھا؟ قارئین محترم اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کو نشے کی لعنت سے محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں خود ہی احتیاط کرنا ہوگی ۔حکمران بیچارے کیاکریں آپ کے سامنے آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے 23افراد کی ہلاکت کا نوٹس لے کر رپورٹ جلد طلب کرلی ہے پھر بھی کراچی میں منشیات کی فروخت کھلے عام ہوتی رہے گی ۔وہ اس لئے کے آئی جی سندھ نے صرف حالیہ واقع کا نوٹس لیا ہے منشیات فروشوں کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا۔حکومت بیچاری اور کر بھی کیا سکتی ہے۔
جب ہم خود منشیات فروشی کے اڈوں پر جاکر شراب ،ہیروئن اور چرس طلب کرتے ہیں ۔ہم منشیات کا استعمال ترک کردیں تو پھر نہ تو حکومت یا محکمہ پولیس کے نوٹس کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی پولیس کی کارروائی کاانتظار۔راقم کی اپیل ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ منشیات کی سرعام خرید وفروخت کا نوٹس لے کر اس زہرکو صوبہ سندھ میں نایاب بنا دیںتاکہ پھر زہریلی،کچی یاپکی شراب یا کوئی اور نشہ آور چیز کسی ماں کا بیٹا،کسی بہن کا بھائی ،کسی بیوی کا شوہر اور معصوم بچوں سے اُن کا والد نہ چھین پائے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر:امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@gmail.com.03154174470