تحریر:ایم پی خان اردوزبان کے منفردشاعر مرزاواجد حسین یاس یگانہ چنگیزی کی پیدائش 17 اکتوبر1884 کوپٹنہ میں ہوئی۔ مغلپورہ مدرسہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرکے عظیم آبادمیں محمڈن اینگلو عربک سکول میں داخل ہوئے۔اپنی ذہانت اورفطری صلاحیتوں کی بدولت ہرجماعت میں اول آتے اورانعامات پاتے رہے۔ 1903 میں کلکتہ یونیورسٹی سے انٹرنس کیااوراسکے بعدتلاش معاش میں ہندوستان اورپاکستان میں کے مختلف شہروں میں گئے اورآخرکارلکھنومیں ہی شادی کرکے ، مستقل رہائش اختیارکی۔
مرزایاس یگانہ چنگیزی، جنہیں زمانہ غالب شکن کے نام سے جانتاہے اورانہیں بدنام اوررسوائے زمانہ شاعرگرداناجاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ انہیں وہ مقام اورمقبولیت نہ مل سکی، جسکاوہ صحیح معنوں میں حقدارتھا۔ہردورکے ادب میں تحقیق کم اورتقلیدزیادہ ہوتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ اردوادب میں بھی کچھ محدودشعراء اورادیبوں اورانکے کلام اورتخلیق کو سند کادرجہ حاصل ہواہے اورانکی ادبی قامت کے سامنے بڑے بڑے اساتذہ فن گوشہ گمنامی کے نذرہوگئے۔بلاتعصب اورغیرجانبداری سے مطالعہ اورتحقیق وتنقید نہ کرنے کانتیجہ ہے کہ انکی زندگی کے صرف وہی پہلووں سامنے لائے گئے، جن کی وجہ سے ہمیشہ سے انکی شخصیت بے رحمانہ مشق ستم کا شکارہے۔چونکہ زندگی کاقیمتی حصہ لکھنو میں گزرااوراہل لکھنونے انکی بالکل قدرنہ کی بلکہ انکے ساتھ ایسی چشمک ہوگئی کہ مرزایاس یگانہ کی ساری زندگی اس سردجنگ کی نذرہوگئی۔لکھنومیں مرزایاس یگانہ کی شخصیت بے رحمانہ مشق ستم کانشانہ بنی اورانکے فن کو وہ قدرنصیب نہ ہوسکی، جوصحیح معنوں میں ہونی چاہئے تھی اورانہیں وہ شہرت اورعزت نہ ملی ، جسکی وہ حقدارتھے۔ اسکی اصل وجہ یہ تھی کہ لکھنو والے غالب کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور ہر اس شاعر کو علم وہنر کاسند سمجھتے تھے ، جس کی غالب کی پیروی کرتاتھا۔چونکہ یاس یگانہ کی شخصیت کی طرح انکے نظریات اوراندازسخن بھی اس وقت کے عام شعراء سے مختلف تھا۔
لہذا اہل لکھنو کی طرح انہوں نے غالب کی پیروی نہیں کی اوراپنی انفرادیت برقراررکھی بلکہ اہل لکھنو کی غالب پروری کو آندھی تقلید قراردیااورانکی دیوانہ وار غالب پرستی کوانکی بہکی ہوئی ذہنیت قراردیا۔اسکے بعدانکی پوری توجہ غالب شکنی پر مرکوز ہوئی اوراسکی آڑمیں انکااپنایہ نقصان ہواکہ انکی شاعری کو عروج اورترقی نہ ملی ۔ غالب اس وقت بھی غالب تھے اورآج بھی غالب ہیں جبکہ مرزایاس یگانہ کی شخصیت اورفن کو زمانے کی بے اعتنائیوں نے مغلوب کردیا۔حالانکہ یہ اہل لکھنو اوراس وقت کے دیگرشعراء اورغالب پرستوں کی محض غلط فہمی تھی ،کیونکہ مرزایاس یگانہ نے اپنے اس طرزعمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہاہے” غالب شکن(رسالہ) لکھنے سے میرا یہ مقصدہرگزنہیں کہ غالب کی شخصیت کومجروح کروں بلکہ ان غالب پرستوں کی اصلاح کرناہے، جنہوں نے غالب پرستی کی آڑمیں تما م شعرائے ماضی اورحال کے حقوق چھین کر سب غالب کو دیدئیے، سب کے کارناموں کو فراموش کرکے غالب کو اردوکاواحد نمائندہ شاعر پیش کیا”۔ اسکے بعداسکے فن میں تنقید زورپکڑنے لگی اوررفتہ رفتہ انہوں نے اردوادب کے دیگربڑے بڑے شعراء پر تنقید شروع کی۔علامہ اقبال، مولاناحسرت موہانی، مولانامحمدعلی، داغ دہلوی اورجرات کا فن شاعری بھی انکے نزدیک کچھ خاص میعاری نہیں ہے ۔ ڈاکٹرظہوراحمداعوان نے اپنے ایک کالم میں مرزایاس یگانہ کو رسوائے زمانہ شاعرکہہ کر، کچھ ایسے واقعات کاحوالہ دیاہے، جس سے عام قاری کے ذہن میں مرزایاس یگانہ کی ادبی قامت گٹھ جاتی ہے ، لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ جن واقعات کاحوالہ ڈاکٹرصاحب نے دیاہے، وہ کوئی ایسی معاشرتی یااخلاقی برائی نہیں ہے ، جس طرح بہت سے بڑے بڑے شعراء نے ایسی چیزوں کاارتکاب کیاہے۔لیکن پھربھی ناقدین نے اور ادب کایکطرفہ مطالعہ کرنے والوں نے انکی شخصیت کے کچھ پہلووں کو بنیادبناکر، انکے کارناموں کو پس پشت ڈال دیاہے۔
Life
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مرزایاس یگانہ زندگی کے آخری دم تک اہل لکھنو کی طعن وتشنیع کا نشانہ بنے لیکن اس پر مرزاکبھی احساس ندامت یااحساس کمتری کا شکارنہ ہوئے بلکہ ان واقعات کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے۔کیونکہ وہ ہمیشہ اپنی بات پرقائم رہتاتھااورکبھی کسی سے متاثر نہیں ہوئے ، نہ کسی کی تعریف کی اورنہ کبھی قصیدے لکھے۔یہی وجہ ہے کہ انکی شاعری کی خوبیوں کو نظراندازکیاگیااورصرف انکی قباحتیں منظرعام پرآئیں اورپھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ادب کے قاریوں نے بھی صرف چند غیرمصدقہ واقعات کو بنیاد پر بناکر ، مرزاکے فن اورشخصیت پر مزید تحقیق نہیں کی اوریوں آج مرزایاس یگانہ کی شخصیت ادب کے عام قاری کے لئے بالکل نامانوس دکھائی دیتی ہے۔
اللہ بھلاکرے، جناب مشفق خواجہ صاحب کا، جنہوں نے کلیات یگانہ مرتب کیا۔جسکے دیباچے اورسوانحی خاکے میں انہوں نے مرزاکی زندگی ، فن اورشخصیت پر تفصیلی بحث کے ساتھ ساتھ انکی شاعری کابہت بڑاسرمایہ محفوظ کرکے اردوادب پر بہت بڑااحسان کیاہے۔ مرزایاس یگانہ کو اللہ نے بلاکاحافظہ اورذہانت دی تھی اوران کاذوق مطالعہ کمال کا تھا، جس کے بل بوتے پر انہوں نے اردو ادب میں ایساسرمایہ چھوڑاہے، جواردوادب کے شیدائیوں کے لئے مشعل راہ ہے۔جن میں علم عروض پر لکھی گئی جامع کتاب ”چراغ سخن ” ہے، جوسند کادرجہ رکھتی ہے ۔ یہ کتاب اہل لکھنوکے ساتھ مرزاکے معرکوں کی یادگارہے۔ اس کتاب کے سرورق پر مرزاکایہ شعردرج ہے۔
مزاریاس پہ کرتے ہیں شکرکے سجدے دعائے خیرتوکیااہل لکھنو کرتے
انکی غزل کے اشعار کس کی آوازکان میں آئی دورکی بات دھیان میں آئی ایسی آزادروح اس تن میں کیوں پرائے مکان میں آئی۔ آپ آتے رہے بلاتے رہے آنے والی اک آن میں آئی
مرزایگانہ اپنے نام کی طرح اپنی شاعری میں بھی یگانہ تھے۔ انہوں نے ہمیشہ وہ راہ ترک کردی، جوپہلے سے مستعمل تھی اوراپنی انفرادیت شروع سے آخرتک برقراررکھی۔وہ بڑے بڑے شاعروں کو خیال میں نہیں لاتے تھے ، تاہم خواجہ حیدرعلی آتش سے متاثرتھے بلکہ خودکو آتش پرست کہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ دبستان لکھنو میں وہ آتش کے بعد سب سے منفردشاعرگردانے جاتے ہیں۔ تخلیقات یگانہ میںشعری مجموعے’نشتریاس اورشہرت کاذبہ ”، علم عروض پر لکھی گئی کتاب”چراغ سخن” ،”غالب شکن” رباعیات ”ترانہ” اور مجموعہ غزلیات ”گنجینہ ”شامل ہیں۔ مرزایاس یگانہ چنگیزی 4فروری 1956کی صبح لکھنومیں وفات پائے۔اہل لکھنو کی مرزاکے ساتھ دشمنی اورنفرت کایہ عالم تھاکہ مرزاکے جنازے میں گنتی کے چند افرادنے شرکت کی ۔
شہرہ ہے یگانہ تری بیگانہ روی کا واللہ یہ بیگانہ روی یادرہے گی۔