اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جی ایس ٹی از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ اخباری رپورٹس کے مطابق نوے فیصد کاروبار غیر رجسٹرڈ ہے۔ غیر رجسٹرڈ کمپنیاں جی ایس ٹی کا تقاضہ نہیں کر سکتیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جی ایس ٹی از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیے کہ جی ایس ٹی وہ ٹیکس ہے جو حکومت کی جیب میں جائے گا اس سے کاروباری حضرات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف پیٹرول ہی نہیں بلکہ تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے استفسار کیا جو پیٹرول پمپ اور کمپنیاں رجسٹرڈ ہی نہیں ان سے وصولیاں کیسے ہوں گی۔ غیر رجسٹرڈ پٹرول پمپس قانون کا بھگوڑا ہے۔ وہ صارفین پر اضافی بوجھ ڈال رہا ہے۔ غیر رجسڑڈ کمپنیاں صارفین سے رقم لے رہی ہیں لیکن یہ قومی خزانے میں جمع نہیں ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مارکیٹ میں جا کر دیکھیں ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے۔
لوگ بیچارے بے یارو مدگار ہیں جو منہ مانگی قیمت ادا کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر اور حکومت صارفین کے اس استحصال کو روکے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ حکومت نے غیر رجسٹرڈ پٹرول پمپس مالکان کے لیے دو فیصد اضافی جی ایس ٹی کا نوٹیفکیشن کیوں واپس لیا۔ اخباری رپورٹس کے مطابق نوے فیصد کاروبار غیر رجسٹرڈ ہے۔ یہ غیر رجسٹرڈ کمپنیاں جی ایس ٹی کا تقاضہ نہیں کر سکتیں۔
چیف جسٹس نے ایف بی آر کے وکیل سے استفسار کیا۔ کتنی اشیا کو جی ایس ٹی سے استثنی حاصل ہے۔ جس پر ایف بی آر کے وکیل کا کہنا تھا کہ 70 اشیا جن میں خوردنی تیل، مرچ، بیج، گنا شامل ہیں جی ایس ٹی سے مستثنی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان اشیا کا قانون میں کیوں ذکر نہیں ہے۔ جن اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں پھر وہ کم نہیں ہوتیں۔ عدالت نے ایف بی آر کے وکیل کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے ایک مفصل رپورٹ پیش کی جائے۔