لاہور (جیوڈیسک) موسیقی کے اساتذہ نے استاد بڑے غلام علی خان کو تان سین اور بیجو باورا کے ہم مرتبہ فنکار قرار دیا ہے۔ پاکستان میں ناقدری کے شکار اس فنکار کو مداحوں سے بچھڑے چھیالیس برس بیت گئے۔
استاد بڑے غلام علی خان نے کلاسیکل گلوکاری میں جدت پیدا کی۔ ترامیم کے ذریعے ان کی گائیکی میں بہت سی خوبیاں پیدا ہوئیں انہیں جن راگوں پر دسترس تھی وہ انکے ہم عصر اساتذہ کبھی حاصل نہ کر سکے۔ استاد بڑے غلام علی خان کو راگ بہنگ، خیال، ایک تال، درت، درباری اور راگ ملہار پر مکمل عبور تھا۔
تقسیم ہند کے بعد استاد بڑے غلام علی خان لاہور میں ہی رہ گئے تھے لیکن ریڈیو کے افسروں کی ناقدری اور پولیس انسپکٹر کی توہین سے دل برداشتہ ہو کر 1954میں بھارت چلے گئے جہاں انہیں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ اور پدما بھوشن سے نوازا گیا۔
پچیس اپریل 1968ء کو کلاسیکل میوزک کے بے تاج بادشاہ حیدر آباد میں حرکت قلب بند ہونے کے باعث انتقال کر گئے۔ موسیقی میں روشناس کراوئی گئی ان کی دھنیں اب بھی زبان زد عام ہیں۔