تحریر: حفیظ خٹک شہر قائد میں یوٹیلٹی اسٹورز 300سے اور پورے ملک میں 15000 سے زائد ہیں۔ ہر اسٹورمیں 2سے 4افراد عوامی خدمت کیلئے موجود ہوتے ہیں۔ کورنگی ،کراچی میں ان اسٹوروں کا مرکزی دفتر ہے۔ ان دنوں عتیق الرحمان کے ساتھ ریاض احمد کراچی ریجن کے ذمہ داران ہیں۔کراچی ،حیدر آباد سمیت دیگر کئی شہروں کے زونل ذمہ دار نذیر سومرو ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹور کے متعلق ایک عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ ان میں اشیائے ضروریات کی قیمتیں کم ہوتی ہیں۔ اس خیال کے تحت عوام کی بڑی تعداد اپنی مہینے بھر کا راشن یوٹیلٹی سے خریدتے ہیں ۔ بسا اوقات عام ضروریات کی اشیاء دکانوں پر تو دستیاب ہوتی ہیں لیکن یوٹیلٹی اسٹور پر وہ اشیاء ناپید ہو جاتی ہیں۔ ان اشیاء میں سرفہرست چینی ہے جو گذشتہ برس کے ماہ رمضان سے ان اسٹورز میں نہیں ملتی تھی اور ایک ماہ قبل سے چینی یوٹیلٹی اسٹور میں دستیاب ہوئی تاہم اس کی قیمت عام دکانوں تک سے زیادہ ہے۔محلے کی عام دکان پر چینی 57/58روپے کی مل جاتی ہے جبکہ یوٹیلٹی اسٹور پر چینی کی قیمت 60روپے ہوتی ہے۔ معیار بھی عام دکانوں کی نسبت کم ہوتا ہے۔ یہی مسئلہ خشک دود ھ کے معاملے میں ہوتا ہے۔ بعض اشیاء میں یوٹیلٹی اسٹور میں قیمت ہوسیل مارکیٹ کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ دالیں ، آٹا چینی اور گھی و تیل بھی عوام کی اکثریت معیار ی اور کم قیمت ہونے کے سبب یوٹیلٹی اسٹور سے خریدتے ہیں لیکن ان کا معیار بھی کم ہوتاجارہا ہے۔ گھی جو کہ مختلف کمپنیوں کا ہوتا ہے اس کا معیار قدرے بہتر ہوتا ہے ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ جب حکومت سبسڈی دیتی ہے تو چینی سمیت دیگر اشیائے ضروریات کی قیمتیں کم ہوتی ہیں ۔ جس طرح رمضان کی آمد سے قبل حکومت عوام کو زیادہ فائدہ پہنچانے کیلئے یوٹیلٹی اسٹورز کو سبسڈی دینے کااعلان کرتی ہے جس کے بعد اسٹورز پر اشیاء کے حصول کیلئے عوام کا رش بڑھ جاتا ہے ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ حکومت سبسڈی کا اعلان صرف ماہ رمضان سے قبل کرتی ہے دیگر عام ایام میں عام حکومت کی جانب سے توجہ کم رہتی ہے جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورز کے ملازمین کو سوشل سیکورٹی کا کارڈ بنا کر دیا جاتا ہے جس کے سبب انہیں ہسپتالوں تک میں رعایت دی جاتی ہے وہ بھی ایک طویل طریقہ کار ہوتا ہے جس کی وجہ سے ملازمین اس جانب کم جاتے ہیں ۔ یوٹیلٹی اسٹورپر حفاظتی اقدامات کا بھی فقدان رہتا ہے۔ پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا یوٹیلٹی اسٹور پر ٹہراؤ برائے نہیں ہوتاہے۔ کسی خاص مقصد موقع پر جب انہیں مطلع کیا جاتا ہے
Shah Faisal Colony
اس صورت میں ان اداروں کے اہلکار اسٹور پر نظر آجاتے ہیں ۔ سیکورٹی نہ ہونے کے سبب ان اسٹورز پر ڈکیتیاں ہوتی ہیں اس کے ساتھ ہی منظم منصوبہ بندی کے ذریعے چور و ڈکیٹ عناصر یوٹیلٹی اسٹور کے عملے سمیت تمام گاہکوں کو لوٹتے ہیں۔ جس کے بعد پولیس تیزی کے ساتھ حرکت میں آتی ہے اور گاہکوں سمیت عملے سے تفتیش کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ پیسوں کا لٹ جانا اور اس کے بعد پولیس کا طریقہ تفتیش عوا م کیلئے اطمینان کا سبب بننے کے بجائے مزید ذہنی الجھنوں کا باعث بن جاتا ہے۔ ہر ٹیلٹی اسٹور کی خرید و فروخت ابتداء میں بڑھتی ہے جو ماہ کے آخر میں بتدریج کم ہوجاتی ہے تاہم سیکورٹی کا معاملہ سارا مہینہ برقرار رہتا ہے۔ سروے کے دوران یہ اطلاع سامنے آئی ہے کہ ڈیفنس ،گلشن اقبال، فیڈرل بی ایریا ، گلستان جوہر اور شاہ فیصل کالونی میں پائے جانے والے اسٹورز ماہ بھر کامیابی کے ساتھ خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ جمع ہونے والی رقم روزانہ کی بنیاد پر قریبی بینک کے اندر موجود اس اسٹور کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دی جاتی ہے ۔ تاہم سیکورٹی نہ ہونے کے سبب ایسا بھی ہوتا ہے کہ عملے کو راستے میں لوٹ لیا جاتا ہے۔ مزاحمت پر یوٹیلٹی اسٹور کے عملے کو زخمی تک کردیا جاتا ہے۔حکومت کی عدم توجہی کے سبب یوٹیلٹی اسٹورز میں گاہکوں کا نقطہ اندراج گر تا جارہا ہے۔ حکومتی توجہ پر یہ گراف بڑھ سکتا ہے تاہم عملے کو اس حوالے سے حکومت سے ہمیشہ گلہ رہا ہے کہ حکومت ان کے مسائل سمیت یوٹیلٹی اسٹورز کے مسائل کو بھی حل کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی۔
یہ بات قابل تعریف ہے کہ پاکستان کے موجود یوٹیلٹی کی تعداددنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی عدم توجہ کا سامنا کرنا پڑرہا ہوتاہے۔ اس اعزاز کے باوجود حکومتی توجہ تمام عملے کیلئے باعث تشویش ہے۔ عملہ اپنے اختیارات کا جائز استعمال کرتے ہوئے صارفین کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ جب غنڈہ گرد اور بھتہ خور عناصر اسٹور کے عملے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ان سے تمام موبائل فون ، نقد رقوم اور اشیاء تک لے جاتے ہیں لیکن پولیس کا طرز تفتیش انہی ملازمین کیلئے درد سر بن جاتا ہے ۔اور اگر کسی فرد نے مزاحمت کی اور نتیجے میں وہ زخمی بھی ہوا لیکن اس کے باوجود اس عملے کو مکمل علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ پرائیوٹ ڈاکٹرز و کلینکس سے علاج کے دوران اس فرد کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ان میں عدم احساس و عدم تحفظ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ ان اسٹورز پر کئی اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کی قیمت ہول سیل اور عام دکانوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اس کے باوجود یوٹیلٹی اسٹورز کی انتظامیہ کی جانب سے کوئی مثبت ردعمل نہیں ہوتا ۔یوٹیلٹی اسٹورز کے سپروائزر و انچارجز سے مسائل و وسائل پر سروے میں ان تمام نقاط سمیت ایک قابل غور نقطہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سابقہ دور حکومت جو کہ پیپلز پارٹی کا دور تھا اس دور میں یوٹیلٹی اسٹورز پر توجہ دی گئی ، اس حوالے سے سبسڈی میں اضافہ کیا گیا جس کی وجہ سے اشیاء کی قیمتیں کم ہونے کے ساتھ دستیاب بھی ہوا کرتی تھیں۔عوام کی جانب سے خریداری کا گراف بڑھنے کے باعث مجموعی گراف میں بھی اضافہ ہوا۔پیپلز پارٹی کی حکومت عوامی مفاد میں کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا کرتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں اگر چینی کم پڑنے لگ جاتی تھی تو وزیراعظم بذات توجہ دیتے ہوئے مسئلے کو حل کردیا کرتا تھے۔ جبکہ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے۔
Utility Stores
یوٹیلٹی اسٹور کے ایک ذمہ دار کا کہنا تھا کہ ملک میں قحط ، زلزلہ، بارشوں میں اضافہ یا کسی اور وقت مصیبت کی صورت میں حکومت متاثرہ علاقوں تک اشیائے خوردونوش و دیگر ضروریات کو یوٹیلٹی اسٹورز سے ہی پورا کیا جاتا ہے۔ اعلی حکام کی جانب سے احکامات آتے ہیں کہ اپنے اسٹور میں اتنا من آٹا، چینی ، گھی یا کوئی اور شے الگ کر کے مرکز پہنچادیں۔ احکامات پر علمدرآمد ہوتا ہے تاہم وہ سب اشیاء یوٹیلٹی اسٹور کے ماہانہ اخراجات میں درج ہوتے ہیں جنہیں کاغذی کاروائی کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے ۔ اس عمل کے دوران بھی کئی پیچیدگیاں سامنے آجاتی ہیں، جس سے عملے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ان کی رائے تھی کہ ایسے معاملات سمیت مسائل کو حل کرنے کیلئے یوٹیلٹی اسٹورز کی قیادت کو عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ صارفین کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں کم قیمت کے سبب یوٹیلٹی اسٹورز کا رخ کرتے ہیں لیکن جب ضرورت کی اشیاء نہیں ملتی یا مہنگی ملتی ہیں تو ذہنی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایسا بارہا ہوتا ہے کہ چینی ناپید ہوجاتی ہے۔ گھی ، تیل و اور بعض اوقات آٹا بھی دستیاب نہیں ہوتا ۔ مصالحے و دیگر چیزیں بھی مہنگی ملتی ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ عوام کے ووٹ لے کر منتخب ہونے کے بعد عوام کے مفادات میں عملی کام کرتے ہوئے یوٹیلٹی اسٹورز پر خصوصی توجہ دیں اور ضروریات کی تمام اشیاء نہ صرف وہاں دستیاب کروائیں بلکہ ان کی قیمتیں بھی کم رکھنے کیلئے ٹھوس اقدامات کریں۔ سیکورٹی کا بھی انتظام کریں تاکہ عوام سہولت و آسانی کے ساتھ پورے مہینے کیلئے اپنا سودا لے لیا کریں۔ اگر حکومت نے توجہ نہ دی اور یونہی عدم توجہی کے عمل کو برقرار رکھا تو عوام یوٹیلٹی اسٹورز کی جانب جانے کے بجائے نئے بننے والے اور مقبولیت حاصل کرنے والے سپر اسٹورز کا رخ کریں گے اور عوام کیلئے بنائے یوٹیلٹی اسٹورز عوام کی عدم توجہی و دلچسپی کے سبب مزید نقصان زدہ بن جائیں گے اور حکومت انہیں مکمل طور پر بند کرنے کا نہ صرف فیصلہ کرئے گی بلکہ اس فیصلے پر علمدرآمدکو بھی جلد کروائی گی۔لہذا عوامی مفاد میں حکومت کو راست اقدام جلد اٹھانا چاہئے ۔