کراچی (جیوڈیسک) پیپلز امن کمیٹی اور لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے دوران تفتیش پولیس اور حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کئی پردہ نشینوں کے نام اگل دیئے ہیں۔
رینجرز ذرائع نے بتایا کہ عزیر بلوچ نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ لیاری کے علاقے گھاس منڈی میں چلنے والے جوئے اور سٹے کے اڈے سے کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی تھی جب کہ جوئے کے اڈے کو اعلی پولیس افسران کی سرپرستی بھی حاصل تھی، اس کے علاوہ جوئے کے اڈے سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک حصہ بڑے بڑے سیاستدانوں کو بھی جاتا تھا۔ عزیر بلوچ کے مطابق کراچی پولیس کے چند افسران اور اہلکار باقاعدہ لیاری گینگ وار کے لئے کام کرتے تھے جس کے لئے وہ منہ مانگی رقم بھی وصول کرتے تھے۔
عزیر بلوچ نے انکشاف کیا کہ ارشد پپو کو جب ڈیفنس کے علاقے سے اغوا کیا تھا گیا تو اس میں ایس ایچ او کلا کوٹ جاوید بلوچ اور امان اللہ نیازی جیسے افسران باقاعدہ پولیس کی وین ساتھ لے کر گئے تھے، ارشد پپو کو اس کے بھائی سمیت وہاں سے اغوا کر کے لیاری میں لایا گیا تھا جہاں اسے قتل کر کے اس کی لاش کے ٹکرے کر کے نالے میں بہا دیا گیا تھا۔
لیاری گینگ وار کے سرغنہ نے مزید بتایا کہ پولیس کے جن اعلی افسران نے ان سے کام کروائے ان میں ایس ایس پی سطح کے افسران بھی شامل ہیں جب کہ کچھ لوگ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ دوران تفتیش عزیر بلوچ نے بتایا کہ فشری کوآپریٹو سوسائٹی کے سلطان قمر نے کئی لوگوں کو اغوا کروایا اور ان سے بھتہ لیا جب کہ کھارا دار اور جوڑیا بازار کے تاجروں سے بھی بھتے وصول کئے۔