جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جن لوگوں کو ویکسین لگائی جا چُکی ہے، کیا انہیں آزادانہ سفر کرنے اور ریستوران وغیرہ جانے کی اجازت دی جانا چاہیے؟ یا انہیں یہ مراعات ملنی چاہییں؟ جرمنی میں باقاعدہ ایک اخلاقی پینل ميں اس موضوع پر بحث ہو رہی ہے۔
جرمنی کی ‘اخلاقیات کونسل‘ کے ايک اجلاس ميں ان افراد کو پابندیوں سے خصوصی چھوٹ دینے کی بات کی گئی جن کو کووڈ انیس کا ویکسین لگ چُکا ہے۔
جرمنی مں گزشتۃ نومبر سے جزوی لاک ڈاؤن جاری ہے۔ بارز، ریستوراں اور اسپورٹس سینٹرز وغیرہ بند ہیں۔ گزشتہ دسمبر میں اسکولوں اور غير ضروری اشیاء کی دکانوں کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تب سے عوامی زندگی بہت حد تک مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
مہلک کورونا وائرس اور اس کی تبدیل شدہ نئی قسم کے پھیلاؤ کے خدشات کے سبب جنوری میں ماسک پہننے اور گھر سے کام کرنے سے متعلق قوانین میں مزید سختی بھی لائی گئی۔
گزشتہ دسمبر کے اواخر میں ویکسینیشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے 80 اور اس سے زیادہ عمر کے شہریوں اور ان کی نگہداشت کرنے والے کارکن اور ‘ہیلتھ ورکرز‘ کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ جرمنی میں فی الحال ویکسین کی قلت بھی پائی جاتی ہے۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اکثریتی عوام کو کورونا سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگوانے، اور جنہیں ٹیکہ لگ چُکا ہے انہیں، کسی قسم کی مراعات حاصل کرنے کے قابل بننے میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے سیاحت کی ایجنسیوں، ایونٹ یا تقریبات کے منتظمین اور چند سیاستدانوں کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ جن افراد کی ویکسینیشن ہو چکی ہے انہیں سفر کرنے، ریستوران جانے اور دیگر تقاریب جیسے کے محفل موسیقی وغیرہ میں شرکت کی اجازت دی جانی چاہیے۔ تاہم ايسی سرگرمیوں میں ہر کسی کا کافی زیادہ لوگوں سے قریبی رابطہ ہوگا۔ جرمن وزیر خارجہ وہ پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے مذکورہ پابندیوں کو ختم کرنے کی بات کی تھی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا، ” کوئی بھی شخص جو اب کورونا وائرس کا شکار ہو کر شدید بیمار نہیں ہے، جسے انتہائی نگہداشت کی ضرورت نہیں اور وہ ملکی صحت کے نظام پر کوئی بوجھ نہیں بنے گا، اُس کی آزادی کے بنیادی حقوق کو مزید پابند نہیں رکھا جانا چاہیے۔‘‘ یہ بیان جرمن وزیر نے اخبار ‘بلڈ ام زونٹاگ‘ کو جنوری میں ایک انٹرویو میں دیا تھا۔
ایسی تجاویز پر مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید سامنے آئی۔ مثال کے طور پر لفٹ پارٹی کی چیئر پرسن کاٹیا کپپنگ نے تنقید کرتے ہوئے جرمن آئین میں آزادی اور مساوات کے ضوابط پر عمل پیرا ہونے کی اپیل کی۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی گزشتہ پیر کو اس قسم کے خصوصی قواعد کو مسترد کر دیا۔ کووڈ انیس ویکسین جرمنی میں لازمی نہیں ہے بلکہ ہر باشندے کا آزادانہ انتخاب ہے۔ جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے متنبہ کیا تھا کہ جن لوگوں کی ویکسینیشن ہو چُکی ہے اُن کے اور جن کی نہیں ہوئی ان کے درمیان فرق کرنا دراصل ویکسین لازمی قرار دینے کے مترادف ہے۔
جرمنی میں ابھی 80 سال یا اُس سے اوپر کی عمر کے افراد کو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔
جرمنی کی اخلاقیات کونسل میں جمعرات کو اس بارے میں ہونے والی بحث کے دوران اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ اس وقت سب سے ضروری عمل یہ ہے کہ اس بات کی وضاحت ہو کہ جن افراد کی ویکسینیشن ہو چُکی ہے آیا وہ اب بھی وائرس پھیلانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس وضاحت کے بعد ہی عوامی مقامات پر ماسک پہننے جیسے قواعد میں چھوٹ پر غور کیا جا سکے گا۔ اس کونسل کی سربراہ الینا بوئکس نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا،” جن افراد کو ویکسین لگ چُکی ہے ان کے لیے کورونا سے متعلق ریاستی پابندیوں کو فی الحال ختم نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ابھی اس متعدی بیماری کے ٹیکا لگنے کے بعد بھی پھیلنے کے امکانات کے بارے میں کوئی مستند یا قابل اعتماد بات سامنے نہیں آئی ہے۔‘‘
اُدھر کونسل کی ایک رُکن زیگفرڈ گراؤمن نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ٹيکے لگوا چُکنے والے افراد پر سے پابندیاں ہٹائی گئیں تو اس کا اثر دوسرے افراد پر بھی پڑے گا۔ اگر انہوں نے ماسک پہننا ترک کر دیا اور پبلک ٹرانسپورٹ ميں سفر کرتے ہوئے دوسرے افراد کو بھی اس کی ترغیب ملی، تو راستے میں کوئی یہ چیک کرنے نہیں آ سکتا کے کسے ویکسین لگی ہے کسے نہیں۔
کونسل کی سربراہ الینا بوئکس طبی اخلاقیات کی ماہر بھی ہیں انہوں نے کہا کہ کورونا ویکسینیشن حاصل کرنے والوں اور ہنوز نا کرنے والوں کے ضمن میں ‘مراعات‘ کی اصطلاح کا استعمال غلط اور تقسیم کا باعث ہوگا۔
جرمنی میں فی الحال ویکسین کی قلت پائی جاتی ہے۔
جرمنی کی اخلاقیات کونسل نے تجویز پیش کی ہے کہ معمر افراد کی نگہداشت کے مراکز میں جب ہر ایک فرد کی ویکسینیشن ہو جائے تب مشترکہ طعام، گھر والوں کے دوروں اور اس مر کز میں رہائش پذیر دیگر افراد کے چھوٹے چھوٹے اجتماعات پر سے پابندی ہٹانے میں کوئی مذائقہ نہیں۔ ماہرین اور اس کونسل کے اراکین کا خیال ہے کہ ایسے مراکز میں رہنے والے انسانوں کو مکمل طور پر الگ تھلگ یا تنہا کر دینا ان کی ذہنی صحت کے لیے مُضر ثابت ہوتا ہے۔ ایسے افراد میں ڈیمنشیا تیزی سے پھیلتا ہے اور زیادہ تر تنہا انسانوں میں افسردگی، پژمردگی وغیرہ جیسے عارضے ان کی صحت پر مزید منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ کونسل کا کہنا ہے کہ ان انسانوں پر معاشرتی پابندیاں اُس وقت تک حق بجانب تھیں جب تک ان کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی۔
کونسل اراکین نے معاشرتی مساوات اور یکجہتی پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ” لاک ڈاؤن کے ساتھ ہماری جدوجہد جب تک جاری ہے تب تک مذکورہ طریقہ کار زیادہ موثر ثابت ہو گا۔‘‘ کونسل کی سربراہ الینا بوئیکس کا کہنا تھا،” یہ وبائی بیماری کے خلاف مشترکہ کوشش ہے جو موثر ثابت ہو گی۔‘‘
جرمن اخلاقیات کونسل کے ممبران کو جرمن صدر مقرر کرتے ہیں۔ وہ پالیسی سازوں کو مشورہ دیتے ہیں تاہم کونسل کی تجاویز کسی کو بھی پابند کرنے کی مجاز نہیں ہوتیں۔