ویلنٹائن کے پس منظر میں جانے کی ضرورت نہیں

Valentines Day

Valentines Day

تحریر : امتیاز علی شاکر
ہرسال 14 فروری کے اردگرد ملتی جلتی معلومات والے بے شمارمضامین اخبارات کے صفحات کی زینت بنتے ہیں،اُن میں زیادہ تر مذہب کو بنیاد بنا کر ویلنٹائن ڈے کی مخالفت والے مضامین ہوتے ہیں، حاصل کچھ بھی نہیں صرف سفید کاغذ کالاہوجاتاہے اورکچھ میرے جیسے شہرت کے بھوکے لوگ اخبارمیں اپنی تصویر دیکھ کرخوش ہوجاتے ہیں،آج کل اخبارات کے ادارتی صفحات پرکیابیت رہی ہے یہ الگ بحث ہے زندگی رہی تواس پر بھی بات ہوگی ۔بے شک دین اسلام واحد ضابطہ حیات ہے جوزندگی کے تمام معاملات میں انسانیت کی راہنمائی کرتاہے۔ اسلام ناصرف ویلنٹائن ڈے بلکہ ہرطرح کی بے حیائی سے منع فرماتاہے۔آج کل بھی ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مباحثے عروج پرہیں ،راقم کاخیال ہے اس تہوار سے آج تک کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوا اس لئے ویلنٹائن ڈے کے پس منظر میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

آپ نے کبھی کہیں سنایاپڑھاہے کہ مشرقی ویلنٹائن ڈے منانے والے چاند پرپہنچ گئے؟زلزلوں کی قبل ازوقت اطلاع دینے والی کوئی مشین ایجادکرلی؟بادلوں کا رخ موڑنے کا کامیاب تجربہ کر لیا؟ کینسر کاعلاج دریافت کر لیا یاکوئی اور بڑا کارنامہ سرانجام دے دیاہےحقیقت تویہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانے والے مرد و خواتین گھر والوں کو بازارسے سبزی تک لادینے کے قابل نہیں ہیں،ویلنٹائن ڈے کس کے نام سے منسوب ہے،کب اور کیوں شروع ہوا؟فضول قسم کی معلومات حاصل کرنے کی غرض سے ماضی کی کھڑکیاں کھول کر طویل وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ۔حال اور مستقبل کا سوچیں ،غور کریں آج کیا ہورہاہے جس کے کل نتائج آئیں گے، دور حاضر میں اپنی مذہبی، معاشی اور تہذیبی اقدارکے مطابق مناسب تعلیم و تربیت وقت کا اہم تقاضاہے۔

ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کیاہے؟ یہ کب اورکیوں شروع ہوا؟ کس فرقے، مذہب یاقبیلے کی تہذیت کاعکاس ہے؟اسلام مخالف ہے یانہیں؟ایسے بہت سارے سولات ہر سال فروری کے مہینے میں سراُٹھاتے ہیں، فروری کا مہینہ جاری ہے اور14فروری سرپر،چاروں طرف ایک شور مچا ہواہے، کوئی ویلنٹائن ڈے منانا چاہتاہے توکوئی اس دن کو منائے جانے کے سخت خلاف اورکوئی خاموش تماشائی ہے۔ میڈیا پر موجود مواد، مطالعہ کیلئے دستیاب کتب ویلنٹائن ڈے کی اصل حقیقت بتانے سے قاصر ہیں ،ہرکسی کااپناخیال ہے اوراپنے سوال وجواب۔عرصہ درازسے اس سلسلہ میں کوشش کرنے کے باوجود کوئی تسلی بخش معلومات حاصل نہیں ہوسکیں۔ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کیااورکیوں کے قید خانے سے نکل کرسوچیں توبات سمجھناآسان ہوجاتاہے۔اس دن کویوم محبت کے طورپرمنانے میں کیافوائد اورکیانقصانات ہیں؟مجھے لگتاہے کہ مذہب سے زیادہ یہ معاملہ معاشرتی ہے۔

Civilisation

Civilisation

ایک قرض دارملک کے عوام ہونے کے ناطے ہمیں ہرقسم کی فضول خرچی کرنے سے قبل اپنے بچوں کے آنے والے کل کے بارے میں سوچناچاہئے، جوآج ہم بوئیں گے کل ہمارے بچوں کوکاٹناپڑے گا،جس تہذیب کا پرچارکریں گے اُس کے زیراثرتربیت پانے والے نوجوان کل کن مشکلات کاشکارہوسکتے ہیں یہ سوچناہمارافرض ہے۔ویلنٹائن ڈے یااس جیسے کسی اورتہوارمیںشامل ہونے سے قبل یہ ضروردیکھ لیں کہ ہماری تہذیب،حالات اورموجودہ معاشرہ اُسے کس تناظر میں دیکھتاہے۔ویلنٹائن ڈے کے معاملے پرچند روزکے بجائے اس بحث کوطویل کرنے سے کوئی حل برآمدہوسکتاہے ،ٹھیک اسی طرح اسلامی اقداروتعلیمات کومدنظر رکھتے ہوئے خاص مذہبی دنوں کوصرف ایک دن تک محدودکرنے کے بجائے ہروقت ،ہرلمحہ بطورتربیت اپنے اخلاقیات میں شامل کرنے سے معاشرے کی اصلاح ہوسکتی ہے۔نوجوان نسل پرسختی کرنے کے بجائے ویلٹائن ڈے کے اخلاقی،معاشی اورمالی نقصانات سے آگاہ کریں ،اُن کو بتائیں کہ اس طرح کے تہوارمنانے سے معاشرتی اقدارپامال ہوتی ہیں،کسی کی بہن بیٹی کومحبت جتانے کیلئے تحائف دینایاایسے الفاظ اورالقابات سے نوازناجن میں بہن ،بیٹی کے مقدس رشتوں کا تقدس پامال ہوکسی صورت قابل قبول نہیں۔

مشرقی معاشرے میں ماں ،بہن،بیٹی اوربیوی سمیت قریبی رشتہ دارخواتین کی طرف اُٹھنے والی بُری نظر مردوں کی غیرت کوللکارتی ہے،جس طرح ہم اپنی ماں ،بہن ،بیٹی اوربیوی کی عزت محفوظ رکھنا پسند کرتے ہیں اسی طرح جس لڑکی کوویلنٹائن ڈے یاایسے کسی اورتہوار یا پھرعام دنوں میں اظہارمحبت جسے ہمارے ہاں ناجائز تعلقات کہا جاتاہے قائم کرنے کوشش کرتے ہیں توپھراُن کے باپ اوربھائی بھی اپنی عزتوں کے رکھوالے ہوتے ہیں، جس طرح آپ اپنی عزت ووقارکے متعلق حساس ہیں اسی طرح دوسروں کو سمجھیں تاکہ ہم سب مل کرمعاشرے میں قیام حیاء کا اہتمام کریں۔

ایسے مضمون نگاروں سے گزارش ہے جوہرسال میڈیا میں موجود معلومات کے مطابق ویلنٹائن کے موضوع پر تحاریر لکھتے ہیں وہ بجائے پرانے خیالات کو دوبارہ پیش کرنے کے قاری کیلئے کوئی نیاپہلو تلاش کریں تاکہ ایک مثبت تبادلہ خیال کا آغاز ہواور کوئی مناسب حل تلاش کیاجاسکے ۔معاشرے کی بے شماراکایئوں کاکسی بھی موضوع پرہم خیال ہوناممکن نہیں پراس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آہنگی پیداکرنے کی کوشش ترک کردی جائے۔ مثبت بحث ومباحثے اوربروقت تبادلہ خیال کے ذریعے ناممکن کوممکن بنایا جا سکتا، صدیوں سے پھیلی وباء کاعلاج منٹوں، گھنٹوں، مہینوں یاسالوں میں نکل آئے یہ بھی ضروری نہیں اس لئے ہمیں صبر کا دامن تھامے طویل جدوجہد کرنا ہو گی۔

Parents and Teachers

Parents and Teachers

والدین، اساتذہ، علماء کرام اور صحافی کا باشعور ہونا انتہائی ناگزیر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاںنہ تو والدین کی اکثریت باشعور ہے اور نہ اساتذہ کتابی نصاب سے باہر نکلنا پسند فرماتے ہیں، صد افسوس کہ سیاسی مفادات حاصل کرنے کیلئے صحافت کا استعمال کرنے والوں کی بہتات ہے، ان حالات میں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنے آنے والے کل کے حوالے سے غیرسنجیدہ ہیں، دنیا بھر کا مال ودولت اپنی اولاد کیلئے جمع کرنے کے خواہش مند تو ہیں پراُن کی اخلاقی تربیت کو ضروری نہیں سمجھتے۔جس سمت محنت نہ کی جائے اُدھر سے اچھے نتائج آنے کی اُمید لگانا کوئی عقل مندی کی دلیل نہیں۔

جدید میڈیا کی صورت میں بدتہذبی کے مراکز ہمارے گھروں میں موجود ہیں ۔ہرٹی وی چینل ویلنٹائن ڈے کے موقع پرہفتہ پہلے سے پرگرامز کا آغاز کر دیتا ہے جن میں باقاعدہ پریکٹیکل کر کے دیکھایا جاتا ہے۔ آج مسلم معاشرے میں بہت سے خاندان ایسے ہیں جنہیں محرم وغیر محرم کے حوالے سے مناسب آگاہی حاصل نہیں، وہ جانتے ہی نہیں کہ اُن کے مذہب میں گناہ کیاہے، ثوات کیا، کس طرح کی سرگرمیوں کی ممانت ہے اورکن اعمال کی تاکید ہے۔

ایسے لوگ محبت کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں خواہ وہ غیر محرم رشتوں کے ساتھ ہی کیوں نہ کی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ادھراُدھر کی ہانکنے کے بجائے ان موضوعات کو مثبت طریقہ کار کے ذریعے زیربحث لاکر طویل حل تلاش کئے جائیں نہ کہ سنی سنائی، باتوں یا پھر پرانے زمانے کے پیش کردہ دلائل کو دہرا کر اپنے نام یا تصویر پر روشنی ڈال شہرت کی ٹھنڈک محسوس کی جائے۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر
[email protected]
03154174470