تحریر : سید علی جیلانی اللہ تعالی نے جب یہ کائنات، آسمان اور حضرت انسان کو تخلیق کیا تو دنیا میں ہر چیز کی مخالف چیز رکھی ہے جیسا کہ زمین آسمان، دن رات محبت نفرت، حق باطل، سچائی جھوٹ، اچھائی برائی، عورت مرد، خوشی اور غم، انسان کے ساتھ خوشی اور غم انتہائی اہمیت کے حامل ہیں غم کئی طرح کے ہیں کسی کا بھائی والد ماں بہن مر جاتی ہے تو انسان کو اپنے پیارے کو کھونے کا غم بے انتہا ہونا ہے کسی کو بیماری یا کاروبار میں نقصان کا غم یا نوکری نہ ملنے کا غم یا محبوب سے شادی نہ ہونے کا غم، اسی طرح خوشی کی بھی انسان کی زندگی میں بڑی اہمیت ہے پیدائش کی خوشی، امتحان میں پاس ہونے کی خوشی، محبوب کو پانے کی خوشی، مکان خریدنے کی خوشی، نئی گاڑی خریدنے کی خوشی، روزہ رکھنے کی خوشی پھر عید منانے کی خوشی وغیرہ وغیرہ یوں تو انسان معاشرے میں بے انتہا تہوار ہیں جن کو ہم مناتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں لیکن آجکل ایک تہوار جو کہ مسلم معاشرے بھی کافی مقبول ہو رہا ہے اسے ویلنٹائن ڈے کہتے ہیں۔
اس دن تو ماشاء اللہ پھول بیچنے والوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتیں ہیں ایک ایک پھول 500 سے ہزار روپے اور گلدستے 4 ہزار سے 8 ہزار روپے میں بکتے ہیں غبارے بیچنے والوں نے سوچا ہم کیوں پیچھے رہیں انہوں نے بھی دل نما غبارے بنا دیئے ان کی بھی عید شروع ہو گئی پاکستانی قوم بھی ماشاء اللہ اس تہوار کو منانا شروع ہو گئی اور ہمارے میڈیا نے اور پرائیویٹ چینلز اس تہوار کے موقع پر خصوصی پروگرام بھی نشر کرنا شروع کر دیئے ہیں پچھلے سال ہم نے دیکھا کہ ویلنٹائن ڈے پر کافی مخالف رد عمل آیا اور کچھ حضرات اس دن کی حمایت میں بولے اور کچھ مخالف، شدید مخالف رد عمل ہمیں خیبر پختونخوا میں نظر آیا جہاں اسمبلی نے ویلنٹائن ڈے کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کی اور ضلع کوہاٹ میں کارڈز اور دوسری اس دن سے منسوب چیزوں پر پابندی لگا دی اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس دن کے خلاف مظاہرے کئے گئے اور کئی ٹاک شو Talk Show منعقد ہوئے جسمیں اس دن کو اسلامی ثقافت کے منافی قرار دیا گیا اور مذہبی جماعتوں نے بھی ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے کراچی میں بھی ساحل سمندر پر جانے کی پابندی لگا دی گئی۔
The Story Of Valentine’s Day
ہمارے صدر جناب ممنون حسین صاحب بھی اس معاملے میں خاموش نہیں رہے اور قوم سے اپیل کی کہ اس دن کو نہ منائیں کیونکہ یہ اسلامی ثقافت کے خلاف ہے اس تہوار کی اسلام اور پاکستان کی ثقافت میں کوئی گنجائش نہیں لیکن ہماری قوم تو ماشاء اللہ ہمیشہ دوسری قوموں کے تہواروں اور رسموں سے بہت جلدی مرعوب ہوتی ہے انہوں نے تو صدر پاکستان کے اس بیان کو ان کی نجی زندگی میں مداخلت قرار دیا آخر میں ویلنٹائن ڈے ہے کیا اور کیوں منایا جاتا ہے اگر ہم دنیا میں نظر ڈالیں تو یہ کرسمس کے بعد دنیا میں منایا جانے والا دوسرا بڑا تہوار ہے اگر ہم اس دن کا تاریخی پس منظر دیکھیں تو برسوں سال پہلے رومن امپائر کے دور میں بادشاہ کلوڈیش ثانی ملک میں ایک بڑی آرمی تشکیل دینا چاہتا تھا لیکن نوجوان اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے جس کی وجہ سے حکومت بڑی پریشان تھی نوجوانوں کے اس رویئے پر بادشاہ کلوڈیس بڑا ناراض ہوا اور اس نے نوجوانوں کی شادی پر پابندی لگا دی۔
اسی زمانے میں روم میں ایک پادری رہا کرتا تھا جس کا نام ویلنٹائن تھا اس نے بادشاہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنا شروع کر دی اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کی خفیہ شادی کرانا شروع کر دیں اور یہ بھی سننے میں آیا کہ پادری ویلنٹائن نوجوانوں کو شادی کے بغیر لڑکیوں کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنے کی بھی ترغیب دیتا تھا جب بادشاہ کلوڈیس کو اس پادری کے بارے میں پتہ چلا تو اسکو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا لیکن کیونکہ پادری ویلنٹائن نوجوانوں میں بے انتہا مقبول ہو چکا تھا اس لئے نوجوان اس کے قید خانے کے باہر پھول اور کارڈز رکھ دیا کرتے تھے آخر بادشاہ کے حکم پر پادری ویلنٹائن کو 14 فروری کو پھانسی دے دی گئی اور اس طرح اس کی یاد میں ہر سال 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے اور دنیا کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں پھول اور تحفے ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔ ہماری پاکستانی قوم دنیا کے ساتھ بغیر سوچے سمجھے اس ڈگر پر چل پڑی ہے اور ہمارے نواجوان لڑکے اور لڑکیاں یہ نہیں سوچتیں اس تہوار کی ہمارے معاشرے اور مذہب میں کوئی جنجائش نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نواجوان لڑکے لڑکیاں اسلام کی صیح روح کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور اسلام کے سچے اصولوں پر چلیں تو اس دنیا میں گناہوں سے بچنے کے بعد قیامت کے دن خدا اور اس کے عسول کے سامنے شرمندہ نہیں ہونگے۔