تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر ویلنٹائن ڈے! یومِ محبت، ایک مغربی تہوار ہے جو ہر سال 14 فروری کو منایا جاتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے مسلم معاشرے کی نوجوان نسل بھی اس تہوار کو بڑے جوش و خروش سے مناتی ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی محبت کا اظہار سرخ پھول دے کر کرتے ہیں۔ اس دن پھول یا تو نا یاب ہو جاتے ہیں یا اُن کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے۔ ہمارا میڈیا بھی اس تہوار کی تشہیر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہم مسلمان ہیں، ہماری اپنی ایک تہذیب ہے، اپنے تہوار ہیں، تو پھر یہود و نصاریٰ کے تہوار کیوں منائیں؟ یہود و نصاریٰ کے تہوار شرک اور بدعات پر مبنی ہوتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ان کی رسومات و روایات اپنانے، تہوار منانے، ان کی مشابہت اختیار کرنے اور اپنے آپ کو ان کے رنگ میں رنگنے سے گریز کرنا چاہئے۔آنے والے وقت کے فتنوں کو بیان کردہ ایک حدیثِ نبویۖ کا مفہوم ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب میری اُمت کے گروہ اللہ کے دشمنوں یعنی یہود و نصاریٰ کی پیروی کریں گے، ان کے مذہبی تہوار منائیں گے اور ان کے رسم و رواج کو اپنا لیں گے۔
ویلنٹائن ڈے اسی فتنے کی مثال اور ایک شیطانی فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتے ہیں، ”اے ایمان والو! شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلے گا سو وہ تو اسے بے حیائی اور بری باتیں ہی بتائے گا۔” (سورة النور: 21)۔ ہماری نوجوان نسل یومِ محبت کے نام پہ بے حیائی کا ارتکاب کر رہی ہے۔ سرِ عام غیر محرم مرد و عورت ایک دوسرے کو پھول دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
Quran
غیر محرم مرد و عورت کے باہمی اختلاط اور آزادانہ میل ملاپ بدترین فتنے کو جنم دیتا ہے اور بے حیائی کو پھیلانے کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن ِ مجید میں ارشاد فرماتے ہیں ” بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے(سورة النور :19) ۔ ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کیا ہے؟یہ کیوں منایا جاتا ہے؟ ویلنٹائن ڈے کا آغاز تقریباً 1700 سال قبل رومیوں کے دور میں ہوا تھا اور اس دور میں رومی بت پرست تھے۔
تیسری صدی عیسوی میں رومی بادشاہ کلاوڈیوس دوئم کو جنگ کے لئے لشکر تیار کرنے میں مشکل پیش آئی تو اس نے وجوہات معلوم کیں پتہ چلا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل وعیال خصوصاًبیویوں کو چھوڑ کر جنگ پہ جانے کے لیے راضی نہیں تو اس نے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی شادی پر پابندی لگادی۔ لیکن ایک پادری جس کا نام پوپ ویلن ٹائن تھا اس نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ شادی رچالی اور چھپ چھپا کر دوسروں کے نکاح بھی پڑھاتا رہا۔ جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے پوپ ویلن ٹائن کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔
جیل میں پادری پر جیلر کی لڑکی عاشق ہو گئی لیکن معاشقہ مکمل نہ ہو سکا اور اسے بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے اور شاہی حکم کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں 14 فروری 279ء کو پھانسی دے دی۔ بعدازاں جب خود رومیوں نے عیسائیت کو قبول کیا تو انہوں نے پوپ ویلن ٹائن کی سزائے موت کے دن کو ”یوم شہید محبت” کے نام سے منسوب کیا۔ شروع میں تحائف کا تبادلہ کیا جانے لگا اور بعد میں تحائف کی جگہ ویلن ٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس تہوار سے متعلق کئی اور روایات بھی مشہور ہیں۔ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ برطانیہ میں ویلنٹاین ڈے سردیوں کے اختتام پر جنگلوں میں پرندوں کے ملاپ کی علامت کے طور پر منایا جاتا تھا اس موقع پر نوجوان ان لڑکیوں کی کھڑکیوں کی چوکھٹ پر پھولوں کے گلدستے رکھتے تھے جن سے وہ محبت کرتے تھے۔
اہل روم 1700 سال قبل اس دن کو عید کے طور پر مناتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک 14 فروری کا دن یونو دیوی کے نزدیک مقدس تھا اور یونو کو عورتوں اور شادی بیاہ کی دیوی کہا جاتا تھا۔ اس تہوار سے متعلق جتنی بھی روایات بیان کی جاتی ہیں ان سے یہ صاف صاف ظاہر ہے کہ یہ غیر مسلموں کا تہوار ہے ، غیر اخلاقی تہوار ہیں۔
Valentine’s Day Celebrate
بحیثیت مسلمان کیا ہمیں یہ دن منانا چاہئے؟ کچھ دوستوں نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اس دن کو اپنے والدین سے محبت کا اظہار کر کے اُن کو گلاب کا پھول دے کر منائیں۔۔۔ کچھ دوستوں نے کہا کہ اس دن کو حیا کے دن کے طور پر منائیں نہ کہ ویلنٹائن کے نام پہ بے حیائی پھیلائیں۔۔۔ سب سے پہلے تو اُن سے ایک سوال جو ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔
آپ کسی کی بہن، کسی کی بیٹی کو پھول دے کر اس سے محبت کا اظہار کر کے بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔۔۔ اور پھر دوستوں کو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ آپ نے کیسے کیسے ویلنٹائن ڈے منایا؟۔۔۔ ذرا سوچئے! آپ کسی کی بہن کو پھول دے کر ویلنٹائن ڈے منا رہے ہیں۔۔۔ کیا آپ کی بہن کے ساتھ کوئی ویلنٹائن ڈے نہیں مناتا ہو گا؟پھر ان دوستوں سے پوچھنا چاہوں گا جو 14فروری کو حیاء کے دن یا والدین سے محبت کے اظہار کے دن کے طور پہ منانے کا مشورہ دیتے ہیں کہ ہم 14 فروری منائیں ہی کیوں؟ کیوں کسی بھی لحاظ سے یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کریں؟ اگر ہم نے حیاء کا دن یا والدین سے محبت کا دن منانا ہی ہے تو سال میں 364 دن اور بھی ہیں پھر 14 فروری ہی کیوں؟ میں کہتا ہوں کہ اگر ویلنٹائن ڈے کا بائیکاٹ کرنا ہے تو اس طرح بائیکاٹ کریں کہ یہ خاموشی سے گزر جائے اور ہمارے معاشرے میں کسی کو خبر بھی نہ ہو۔۔۔