14 فروری کو یورپ اور امریکہ میں ویلنٹائن ڈے دھوم دھڑکے سے منایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں شہروں میںاِس رسمِ بَد کا رجحان ”برگر فیملیز” اور ”نودولتیوں” کے ہاں تو ایک حد تک ہے لیکن، دیہاتوں میں بسنے والے 70 فیصد عوام ابھی تک اِس سے بچے ہوئے ہیں۔ اِن ”اونچی بستیوں” میں تہذیبِ مشرق سے نفرت کے مظاہر عام ملتے ہیں۔ ویسے بھی جس ملک کی رسوم ہندوانہ، معاش کرپشن اور معاشرت تہذیبِ مغرب کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے ہوئے ہو، وہاں ایسے مظاہر اچنبے کی بات نہیں۔اِیسے ہی لوگوں کے بارے میں حضرتِ اقبال کہہ گئے۔
اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
ہمارے کالم کا موضوع ویلنٹائن ڈے نہیں، اِس پر ہم پہلے بھی لکھ چکے، ہم آج اُس ویلنٹائن ڈے کی بات کرنا چاہتے ہیں جو نوازلیگ منا رہی ہے۔ ہوا یوں کہ 14 فروری کو جب لوگ اپنے چاہنے والوں کو پھولوں کے تحفے پیش کر رہے تھے، لاہور ہائیکورٹ کے دو رُکنی بنچ نے سابق خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر مِل کیس میں ضمانت پر رہائی کا پروانہ دے کر ایسا ”کھڑاک” کیا کہ پورے ملک میں تھرتھلی مچ گئی۔ سینئر لکھاری ارشاد بھٹی کے نزدیک یہ نوازلیگ کے لیے ”ویلنٹائن ڈے ” کا تحفہ ہے۔ دورکنی بنچ کے اِس فیصلے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی چاندی ہو گئی۔ حسبِ سابق ”سانحہ ساہیوال” کی دھول بیٹھ رہی تھی جس پر الیکٹرانک میڈیا حیران وپریشان کہ اب کون سی بریکنگ نیوز ایسی ہوجسے ”بارہ مصالحوں” سے تیار کرکے ریٹنگ کو آسمان کی رفعتوں تک پہنچایا جائے۔ شاید دورُکنی بنچ نے میڈیا کی اِسی بے چینی کو بھانپتے ہوئے یہ ”کھڑاک” کیا جس سے سارا میڈیا نہال ہوگیا۔ اب اگلے چند دنوں تک ایک طرف آگ اُگلتے اور دوسری طرف خوشی کے شادیانے بجاتے تجزیہ نگار الیکٹرانک میڈیا پر ”چونچیں” لڑاتے نظر آئیں گے۔
عین ممکن ہے کہ میاں شہبازشریف کی ضمانت پر رہائی کے پیچھے نوازلیگ کے ”جادوٹونے” کا ہاتھ ہو۔ اگر ایک وزیر با تدبیر پر جادو کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے تو جسٹس صاحبان پر کیوں نہیں؟۔ پنجاب کے وزیرِاطلاعات فیاض چوہان نے ”پبلک کے پُرزور اصرار پر” اطلاع دی ہے کہ اُن پر جادو ہونے لگا ہے۔ اُنہوں نے الحمرا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اُن کے کمرے سے ہڈیاں برآمد ہونے لگی ہیں اور مافیا نے اُن کے خلاف جادو کرنا شروع کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام یقیناََ شریف برادران ہی کا ہوگا کیونکہ اُن کے سواکوئی”مسّلمہ مافیا” تو ہو ہی نہیں سکتا کہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ اِس پر مہرِتصدیق ثبت کر چکا ہے۔
چوہان صاحب نے یہ تو نہیں کہا کہ نوازلیگ نے ”بوٹیاں” خود کھا کر ”ہڈیاں” اُن کے گھر میں پھینک دیں لیکن شک اُن کا بہرحال نوازلیگ پر ہی ہے۔ ہمارا چوہان صاحب کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اگر معاملے کی تہ تک پہنچنا چاہتے ہیں تو لال حویلی والے شیخ رشید سے رجوع کریں۔ شنید ہے کہ اُس کے پاس ایک ”کرنی والا” طوطا ہے جو فال نکال کر سب کچھ بتا دیتا ہے۔ ہم تو شیخ صاحب کو کئی مرتبہ مشورہ دے چکے کہ وہ ”سائیڈبزنس” کے طور پر ”طوطافال” نکالنا شروع کر دیں، کاروبار چمکنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیںلیکن آجکل وہ وزیرِ ریلوے بن کرلمبی لمبی چھوڑ رہے ہیں اِس لیے اُنہیں ہمارے مشورے پر کان دھرنے کی فرصت نہیں۔ پیپلزپارٹی کے رَہنماؤں حسن مرتضےٰ اور مرتضےٰ وہاب نے فیاض چوہان کے اِس بیان کو پبلسٹی کا چھچھوراپن قرار دیا ہے۔ اُن کے نزدیک چوہان صاحب شدید نفسیاتی عارضہ میں مبتلاء ہیں۔ اُن کو صرف ماہرِنفسیات کی ضرورت ہے۔ مرتضےٰ وہاب نے کہا ”پاکستان میں پہلے ہی حکومت جادوٹونے پر چلائی جا رہی ہے اِس لیے ہم تحقیقات چاہتے ہیں کیونکہ جادوٹونے کی سرکار ہمیں منظور نہیں۔
” اصلی تے وَڈے” وزیرِاطلاعات فوادچودھری پر شاید جادوٹونہ تو نہیں کیا گیا البتہ اُن پر ہائیکورٹ کے دورُکنی بنچ کا جادو ضرور چل گیا۔ اب اُن کا چور، چور اور ڈاکو، ڈاکو کا شور بھی ٹھَپ ہوکر رہ گیا کیونکہ چور، ڈاکو کے للکارے میں ”کَکھ” باقی نہیں بچا۔ اِسی لیے اب فوادچودھری نَیب کو سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ہائیکورٹ کے اِس فیصلے پر فوادچودھری یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ڈیل ہوئی یا ڈھیل یا پھر این آر او کیونکہ اگر این آر او یا ڈیل ہوئی تو ظاہر ہے کہ طاقت کے اصل مراکز کی طرف سے ہوئی اور اگر ڈھیل ہوئی تو عدالت کی طرف سے۔ طاقت کے اصل مراکز کے بارے میں بات کرتے ہوئے فوادچودھری کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور عدلیہ کے خلاف بات کرنے سے ”توہینِ عدالت” کا خطرہ ہے اِس لیے نہ صرف چودھری صاحب بلکہ پوری تحریکِ انصاف ”صبرشکر” کرکے بیٹھ رہی ہے۔
اُدھر شیخ رشید کے غبارے سے بھی یقیناََ ہوا نکل گئی ہوگی۔ جب سے میاں شہبازشریف PAC کے چیئرمین بنے ہیں، شیخ صاحب کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔ پہلے وہ اِس چیئرمینی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کی دھمکیاں دیتے رہے، پھر کپتان کی ”منتیںتَرلے” کرکے PAC کی ممبرشپ کے حصول کی کوشش کی لیکن سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اُن کا نام کمیٹی میں ڈالنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ صرف سپیکر قومی اسمبلی ہی نہیں، تحریکِ انصاف کے اندر سے بھی آوازیں اُٹھنیں لگیں کہ کمیٹی میں شیخ صاحب کی رکنیت کی کوئی ضرورت نہیںکیونکہ اگر میاں شہبازشریف کوئی غلط کام کرنے لگیں گے تو اُنہیں روکنے کے لیے تحریکِ انصاف کی کثیر تعداد کمیٹی میں موجود ہے۔
تب شیخ صاحب نے کَج بحثی شروع کر دی۔ وہ یہ کہتے پائے گئے کہ سپیکر کے پاس تو کوئی اختیار ہی نہیں،چونکہ اُن کے نام کی وزیرِاعظم نے سفارش کر دی ہے اِس لیے وہ کمیٹی کے رکن بن چکے۔ میاں شہباز شریف کی چیئرمین شِپ پر شیخ صاحب کو یہ اعتراض تھا کہ ایک ”چورڈاکو” بھلا کیسے PAC کا چیئرمین بن سکتا ہے۔ اب چونکہ ہائیکورٹ نے فی الحال میاں شہباز شریف کو ”مسٹرکلین” کا سرٹیفیکیٹ عطا کر دیا ہے اِس لیے دیکھنا ہوگا کہ شیخ صاحب اِس چیئرمینی کے خلاف کیا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ صرف شیخ صاحب ہی نہیں تحریکِ انصاف کے ارکان کی اکثریت کو بھی میاں شہبازشریف کی چیئرمینی نہ صرف کھٹکتی تھی بلکہ عدم اعتماد کی باتیں بھی ہونے لگی تھیں۔ خود وزیرِاعظم عمران خاں بھی اِس معاملے پر آگ اُگلتے نظر آئے لیکن میاں صاحب کی ضمانت کے بعد معاملہ یکسر بدل چکا۔ دیکھیں اب تحریکِ انصاف کونسا پینترا بدلتی ہے۔
اُدھر ہائیکورٹ کے دورکنی بنچ نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر مِل کیسز پر نیب کی خوب کلاس لی۔ معزز ججز نے اپنے ریمارکس میں فرمایاکہ شہباز شریف رمضان شوگرمِل کے کبھی چیف ایگزیکٹو نہیں رہے، لگتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ رمضان شوگرمل کے چیف ایگزیکٹو حمزہ شہباز ہے جس کے بارے میں نیب کا کہنا ہے کہ اُس کی گرفتاری کی کوئی ضرورت نہیں۔ گویا بیٹے کو نہیں پکڑنا، باپ کو پکڑ لو۔ جسٹس ملک شہزاد احمد کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے میاں شہبازشریف کی درخواست ضمانت پر کئی روز تک کارروائی کی۔
معزز بنچ کو شہباز شریف کے وکلاء نے بتایا کہ میاں شہباز شریف نے بطور وزیرِاعلیٰ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کیا اور نہ ہی قومی خزانے کو کوئی نقصان پہنچا۔ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کی زمین بھی موجود ہے اور درخواست گزاروں کے پیسے بھی محفوظ۔ پھر اختیارات کے ناجائز استعمال کا کیا سوال۔ نوازلیگ کے لیے یہ ویلن ٹائن ڈے تو ہے ہی، سوال مگر یہ کہ آمر پرویزمشرف کا قائم کردہ ادارہ ”نَیب” آخر کب تک شرفاء کی پگڑیاں اچھالتا رہے گا؟۔ قصور ہمارے رَہنماؤں کا بھی ہے کہ طاقت ہونے کے باوجود اِس ادارے کو ”نَتھ” ڈالنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ اِس لیے نیب نے شتربے مہار تو ہونا ہی تھا۔ 14 فروری کو ہی چیئرمین نیب کی زیرِصدارت ہونے والے اجلاس میں مزید 13 افراد کے خلاف انکوائری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اِن افراد میں کئی بڑے بڑے افراد بھی شامل ہیں۔ آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا۔