تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا ویلن ٹائن ڈے دراصل ابلیس ڈے ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک کے برگزیدہ نبی حضرت آدم علیہ السلام کوجب اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں اور ابلیس سے کہا: میں کھنکھناتے ہوئے سیاہ اور سڑے ہوئے گارے سے ایک انسان بنانے والا ہوں۔ جب میں اسے ٹھیک طرح سے بنا کر مناسب شکل دے دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔ (الحجر: ٩٢۔٨٢۔و اعراف: ٢١۔١١)
الغرض اللہ نے پوری زمین سے ایک مٹھی مٹی لی یہی وجہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں کوئی گورا ہے، کوئی کالا ہے، کوئی سانوالا ہے، کوئی نرم ہے، کوئی سخت ہے،، کوئی ناپاک ہے اور کوئی پاک ہے۔ (ترمذی، ابو داؤد)پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کے خلاصے سے گارا تیار کیا۔ (مؤمنون:٢١)
جب گارا سیاہ اور بدبودار ہوگیا اور اس سے کھن کھن کی آواز آنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا۔ (القرآن)
اللہ نے پتلے کو کچھ عرصہ کے لئے ویسے ہی چھوڑ دیا جب ابلیس نے اسے دیکھا تو اس کے گرد چکر لگانے لگا اور اس کو بغور دیکھتا رہا۔ اس نے دیکھا کہ پتلا اندر سے خالی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ آدم اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے۔ (مسلم) اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن عصر کے بعد اس پتلے کو زندہ انسان بن جانے کا حکم دیا۔ حکم سنتے ہی وہ پتلا زندہ انسان بن گیا۔ (آ(القرآن)۔ اور صحیح مسلم)
جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی انہوں نے اللہ کے حکم سے الحمدللہ کہا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ۔اللہ تم پر رحم کرے۔ (ابن حبان)
اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا جاؤان فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ کیا کہتے ہیں جو کچھ وہ کہیں وہی تمہارا اور تمہاری ذریت کا سلام ہوگا۔ آدم علیہ السلام ان کے پاس گئے اور ان سے کہا: ”السلام علیکم ”فرشتوں نے جواب دیا ”وعلیک السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ” (بخاری)جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو تمام فرشتے اللہ کے حکم کے مطابق آدم کے سامنے سجدہ میں گر پڑے لیکن ابلیس نے تکبر کیا اور سجدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (اعراف:١١۔٢١)اسی طرح ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ تکبر کیا، جب کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے ایسے مکرم بندہ ہیں کہ اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ نے آدم کی پسلی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا تاکہ آدم ان سے سکون حاصل کریں۔ ((القرآن):بخاری)
پھر اللہ نے انہیں جنت میں رہنے کا حکم دیا۔ (اعراف: ٩١)آدم جمعہ کے دن جنت میں داخل ہوئے۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا تم اپنی بیوی کے ساتھ اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ تم نقصان اٹھاؤگے۔ اور یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے۔الغرض یہاں تم بڑے عیش و آرام سے رہو گے۔ (القرآن))
آدم اور ان کی زوجہ جنت میں بڑے آرام سے رہ رہے تھے لیکن ابلیس ان کے پیچھے لگا ہوا تھا اس نے آدم سے کہا اے آدم! میں تمہیں ایسا درخت نہ بتاؤں کہ جس کو کھا کر تم کو ایسی سلطنت مل جائے جس میں کبھی ضعف نہ آنے پائے۔ (طہ:٠٢١)اور ایک دن ان سے کہنے لگا تمہارے رب نے جو تمہیں اس درخت سے منع کیا ہے صرف اس لئے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ اور ہمیشہ زندہ رہو اور پھر قسم کھا کر کہا میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ (اعراف: ٠٢۔١٢)درخت سے کھانا ہی تھا کہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہوگئیں۔ یہ دیکھ کر انہوں نے جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے شروع کر دیئے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم یہاں سے اتر کر نیچے چلے جاؤ اب تمہیں کچھ عرصے کے لئے زمین پر رہنا ہے اور وہیں فائدہ اٹھانا ہے۔ ((القرآن))
پھر اللہ تعالیٰ نے جمعہ ہی کے دن انہیں زمین پر اترنے کا حکم دیا اور اسی دن وہ زمین پر اتار دئے گئے۔ (نسائی، ابو داؤد، ابن حبان)
اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ مسیحیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا۔ اس لیے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ٤١ فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت’ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کر دیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ یہ بات سمجھی جائے اور ہر ایک کو باور کروائی جائے کہ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ ا س سے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ناراض ہوتے ہیں۔ ہماری تباہی و بربادی اور تنزلی کا اصل سبب خدا و ر رسول کی ناراضگی ہے۔اللہ پاک ہمیں معاف فرمائے اور اس سے بچنے کی توفیق دے ۔ ایہ سنجیدگی، متانت، عزت و وقار اور حیاء کے بلکل خلاف کام ہے۔
ویلٹائن ڈے کئی عفت مآب بہنوں کی عزت کے آنچل تار تار ہوتے ہیں۔ کئی خاندانوں میں دشمنیاں جنم لیتی ہیں نوبت قتل و قتال تک جا پہنچتی ہے۔ ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں ایسے واقعات و سانحات ہیں کہ اس دن عزت و شرافت کے جنازے نکلتے ہیں اور غیور وباشعور خاندانوں میں ماتم کی صفیں بچھ جاتی ہیں۔ جنسیت کے بْت کو ”اظہارِ محبت” کا لبادہ اوڑھا کر پوجا جاتا ہے۔ یوم محبت کے دلکش اور دلربا عنوان سے شیطانی عمل کو فروغ دیا جاتا ہے۔ کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا دن قیامت اس کا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا۔ کے تحت خدا اور رسول دشمنوں کی صفوں میں شامل ہو ا جاتا ہے۔ جو ہمارے لیے کسی طور پر فائدہ مند نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی ہے۔
یہ بات یا رکھیں پہلے شیطان نے آسمان سے بابا حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حضرت حوا علیہ السلام کو جنت سے نکلوا کر زمین پر لایا تھا۔۔ اب وہ اولاد آدم علیہ السلام کو زمین سے دوزخ میں لانا چاہتا ہے اور اسی سلسلے کی کڑی ویلن ٹائن ڈے یعنی شیطان ڈے ہے۔