تحریر: سارہ قریشی، کراچی ویلٹنائن ڈے کو عاشقوں کے تہوار (Lover’s Fesitival) کے طور پر منایا جاتا ہے تاہم یہ سوالات اہم ہے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کی حقیقت کیا ہے اور عاشقوں کے تہوار کے طور پر کیوں منایا جاتا ہے؟ یا سینٹ ویلنٹائن سے اس کی کیا نسبت بنتی ہے۔
بک آف نالج میں ہے کہ ” ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پرا ±مید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کر دیا۔“
14 فروری کا یہ ’یومِ محبت‘ سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کے بارے میں محمد عطاءاللہ صدیقی رقم طراز ہیں: ”اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 41فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوش عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں ا ±ڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔
بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہورہے تھے۔“
”اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ۱۴ فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں ا ±ڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہورہے تھے۔“
The Story Of Valentine’s Day
ویلنٹائن کی تاریخ عیسائی راہب ولنٹینس یا ویلنٹائن سے یوں جڑی ہے کہ جب رومی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لئے لشکر تیار کرنے میں مشکل ہوئی تو اس نے اس کی وجوہات کا پتا لگایا۔ بادشاہ کو معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل وعیال اور گھربار چھوڑ کر جنگ میں چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس نے شادی پر پابندی لگادی لیکن ویلنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف خود خفیہ شادی رچالی ، بلکہ اور لوگوں کی شادیاں بھی کرانے لگا۔، جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو گرفتار کیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی۔
اس دن کی ابتداءجےسے بھی ہوئی آج یہ تہوار اپنی مشرکانہ فضول نظریات کی طرف لوٹتا نظر آتا ہے۔ یہ کیسی محبت ہے جو تحفے تحائف پہ منحصر ہے۔ پورے سال میں صرف ایک دن منائی جاتی ہے۔ اظہار محبت نہ ہونے پر جلن اور احساس کمتری پیدا کرتی ہے۔ پچھلے سال اخبار میں ایک خبر چھپی کہ ایک عورت نے اپنے شوہر سے صرف اس وجہ سے طلاق لے لی کہ اسنے ویلنٹائن ڈے کے موقعے پر اسے وش نہیں کیا۔ سرخ گلاب اور مختلف تحائف کا تبادلہ بظاہر بے ضرر اور معصومانہ اظہار محبت دکھائی دیتا ہے ۔مگر حقیقت میں یہ دن نوجوان طبقے میں جنسی بے راہ روی جذبات آزادنہ اور کھلے اظہار کو فروغ دے رہا ہے۔ عشق و محبت کے اس کھیل کے ذریعے دین اسلام کو پس پشت ڈال کر اس کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔ تہوار قوموں کی پہچان اور ثقافت کی علامت ہوتے ہیں اور آج اس طرح کی خرافات میں پڑ کر ہم اپنی پہچان کھوتے جا رہے ہیں۔
اسلامی اعتبار سے ہماری محبت کی سب سے زیادہ حقدار صرف اللہ کی ذات ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھراہل ایمان ہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”بیشک تمہارے دوست تو صرف اللہ اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان ہیں تو نماز قائم کرنے زکوة ادا کرنے اور اللہ کے آ گے سر جھکانے والے ہیں اور جو شخص اللہ اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنادوست بنالے وہ یقین مانے کہ اللہ کا گروہ ہی غالب رہنے والا ہے“۔ (سورةالمائدہ ) اصل محبت وہی ہے جو بے غرض ہوپرخلوص ہو اور ہمیشہ سلامت رہنے والی ہو اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے بڑھ کر کوئی محبت پائیدار نہیں جو ناصرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی ہمارے لیے نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جونہ نبی ہیں نہ شہداءلیکن قیامت کے روز اللہ انہیں اسے درجات سے نوازے گا جن پر انبیاءاور شہداءبھی فخر کریں گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہوںگے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ”یہ وہ لوگ ہوں گے جوبغیر کسی رشتے اور مالی لین دین کے محض اللہ کی رحمت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اللہ کی قسم ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر ہوں گے جب لوگ خوفزدہ ہوں گے تو انہیں کسی قسم کا کوئی خوف نہ ہوگا جب لوگ غمزدہ ہوں گے تو یہ بے غم ہوں گے۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ یونس کی تلاوت فرمائی”خبرداراللہ کے وہ دوست جو اللہ پرایمان لائے اور پرہیزگار بن کر رہے ان کے لیے کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہوگا ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بھی بشارتیں ہی ہیں اللہ کی باتیں کبھی نہیں بدلتیں یہ بہت بڑی کامیابی ہے“۔(سنن ابی داو ¿د) اہل یورپ اسلام کے ازلی دشمن ہیں کیونکہ نوجوان نسل ہی کسی معاشرے کی ترقی کی اہم بنیاد ہوتی ہے ان دشمنان دین کی سازش ہے کہ اس طبقے کو مغربی اقدار کی چمک دھمک دکھا کر اس انداز سے قابو کیا جائے۔ آج بحیثیت مسلمان ہماری ذمے داری ہے کہ دشمنوں کی سازش کو ناکام بنادیں اور لوگوں میں اس شعور کو بیدار کریں کہ اصل محبت تو بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پابندی سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔
Celebrate Valentine’s Day
نوجوان طبقے میں اس شعورکو بیدار کرنا ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانے کا مطلب رومی اور عیسائیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے اور کسی قوم کی مشابہت اختیار کرنا اسی قوم میں سے ہونے کے مترادف ہے۔آج کے دن ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہے کہ ہم اپنی محبت کا محور و مرکز صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو ہی بنائیں گے اور باطلانہ رسم ورواج کوچھوڑ کر اللہ کی رضا کے مطابق زندگی بسر کریں گے تاکہ دنیا وآخرت کی حقیقی کامیابی حاصل کر سکیں۔