ویلنٹائن ڈے؟

Valentine's Day

Valentine’s Day

تحریر: امتیاز شاکر
کسی بھی معاشرے میں پھیلتی ہوئی جسمانی، اخلاقی، زبانی اور دیگر کئی قسم فحاشی و عریانی کے پیمانے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ اُس معاشرے کی اکائیاں کس قدر باشعور ہیں۔ غیرت مندقومیں اپنی تہذیب اور وسائل کو مدنظر رکھ کر چلا کرتی ہیں۔آج ہم سب کچھ بھول چکے ہیں کہ ہمیں اپناوقت اورسرمایہ کہاں خرچ کر رہے ہیں اور کہاخرچ کرنے کی ضرورت ہے، کم وسائل اور زیادہ مسائل میں زندگی بسر کرنے کیلئے انتہائی سادگی اپنانے اور فضول خرچی سے ہرممکن بچے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔نجانے ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم انتہائی فضول قسم کی سرگرمیاں اپناتے وقت اپنی اوقات تک بھول جاتے ہیں۔گھر میں بوھوڑے والدین بیمار ہیں اُن کو بچوں کے وقت کی ضرورت ہے اُن کودوا کی ضرورت پراولاد کے پاس والدین کیلئے نہ تو وقت ہے اور نہ ہی اُن کے علاج پرخرچ کرنے کیلئے سرمایہ جبکہ بوائے فرنیڈ اور گرل فرینڈ کے ساتھ ویلنٹائن ڈے منانے ،تحفے تحائف اوردعوت کھلانے کیلئے وقت بھی ہے اور سرمایہ بھی ۔اظہار محبت کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اس بات سے باخوبی واقف ہوچکے ہیں کہ دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے 14فروری کو منایا جاتا ہے ۔دنیا کے کئی ممالک میں اس تہوار کی تیاری فروری کے مہینے کے آغاز سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔

لوگ سرخ رنگ کے ملبوسات، کارڈز، مٹھائیاں، اور دیگر تحائف وغیرہ خصوصی طورپر ویلنٹائن ڈے کیلئے تیار کرتے ہیں۔یونیورسٹیوں اور کالجز میں طلباء اور طالبات اس دن کو روایتی اور ثقافتی تہوار کی طرح منانے کا اہتمام کرتے ہیں۔اس موقع پر خصوصی دعوتوں کا اہتمام کیاجاتا ہے اورارد گرد کے ماحول کوسجانے کیلئے سرخ رنگ نمایاں ہوتا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے مغرب کے اس روایتی تہوار کو منانے میں پاکستانی نوجوانوں میں گرم جوشی نظر آتی ہے جبکہ گزرے سال میں 14کے دن پاکستانی بزرگ لوگ بھی خالصتاً اس مغربی تہوار کی حمایت کرتے نظرآئے۔ بڑے شہروں کی معروف شاپنگ مارکیٹوں میں اس دن کی روایت کے حوالے سے تحائف، کارڈ اور پھولوں کے خصوصی سٹالز لگائے جاتے ہیں۔فائیو سٹارز ہوٹلوں میں اس دن کی مناسبت سے خصوصی ڈنر ٹیبل لگائے جاتے ہیں اور ڈائننگ ہال کو سرخ غباروں اور سجاوٹ کی مختلف چیزوں سے ،کرسیوں اور میزوںپربھی سرخ رنگ کے کپڑے کے ہوتے ہیں ۔تاریخ میں ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے دو تین روایات سننے میں آتی ہیں جن میں سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ 270ء میں روم کے بادشاہ نے اپنے فوجیوں پر شادی کرنے کی پابندی عائد کردی۔ اس کا خیال تھا کہ میدان جنگ میں شادی شدہ فوجی کی نسبت غیر شادی شدہ فوجی زیادہ بہتر ندازمیں لڑتے ہیں۔

سینٹ ویلنٹائن نے اس پابندی کو بادشاہ کی نا انصافی سمجھا اور اس نے خفیہ طور پر فوجی نوجوانوں کی شادیاں کروانی شروع کردیں۔ جب یہ بات منظر عام پر آگئی تو رومی بادشاہ نے سینٹ ویلنٹائن کو اس کی اس حرکت پر سزائے موت کا حکم دے دیا۔سینٹ ویلنٹائن کو قید میں رکھا گیا وہاں اسے جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی سینٹ ویلنٹائن نے مرنے سے پہلے ایک خط کے ذریعے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ جس دن سینٹ ویلنٹائن کو سزائے موت دی گئی وہ 14 فروری کا دن تھا اس لئے دنیا بھر میں 14فروری کو محبت کرنے والے سینٹ ویلنٹائن کی یاد میں یہ دن مناتے ہیں اور اس لئے اس دن کو ویلنٹائن کے نام سے ہی منسوب کیا گیا ہے۔قارئین تھوڑا غور کریں شادی کسی بھی فرد کا ذاتی عمل اور سب حق ہے ۔شادی پر پابندی لگانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔جہاں تک رومی بادشاہ کی اپنے فوجیوں شادی پر پابندی لگانے اور سینٹ ویلنٹائن کی جانب سے اس پابندی کی مخالفت کے بات ہے تواس میں یوم محبت اور اظہار محبت کا کہیں ذکر نہیں ہوتا۔

Love

Love

کیونکہ رومی بادشاہ نے شادی پر پابندی لگائی تھی ناکہ محبت یا محبت کی شادی پر۔پھر یہ کہا جانا کہ سینٹ ویلنٹائن کو دوران قید جیلر کی بیٹی سی عشق ہوگیا اور پھر اُس نام لکھے جانے والے خط کے منظر عام پر آنے کے بعد 14فروری کو یوم محبت یایوم اظہار محبت کے طور منایا جاتا ہے۔ایساہے تو پھرحالات حاضرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے سال کے تمام دن یوم محبت اوریوم اظہارمحبت کے نام کردئیے جانے چاہئے۔میںہرگزیہ نہیں کہہ رہاکہ محبت یا اظہار محبت پر پابندی عائد کردی جائے بلکہ کہنے مطلب یہ ہے کہ ہمارا مذہب،تہذیب اور معاشرہ جس طرح اجازت دیتا ہے ہمیں اُسی انداز کے ساتھ محبت کا اظہار کرناچاہیے۔نہ کہ اپنی تہذیت وتمدن اور اوقات سے باہر نکل کراپنے پیسے اور وقت کو ضائع کردیناچاہئے۔ٹھیک ہے مغرب میںسینٹ ویلنٹائن کی یاد میں منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے کے موقع پر عام طور تو تحائف اور سرخ پھولوں کا تبادلہ کیاجاتا ہے جبکہ مختلف ممالک کے لوگ اس موقع پر باقاعدہ تقریبات کا بھی اہتمام کرتے ہیں ۔یعنی اہل مغرب اس تہوارکوایک روایت کے طورپر مناتے ہیں تو ضروری نہیں کہ ہم بھی انھیں کی پیروی میں لگ جائیں ۔ہماری اپنی تہذیب اور رہن سہن ہے۔اہل مغرب کی مائیں ،بیٹیاںاور بہنیں کم کپڑے پہنتی ہیں ،کئی کئی بوائے فرینڈ بناتی ہیں توکیا ہم اہل مغرب کی ایسی روایات اپناتے ہیں؟ جب ہم کسی غیر محرم عورت کوجنسی تعلق قائم کرنے کی نیت سے پھول،کارڈ یا دیگر تحائف دیتے ہیں تب ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہ عورت کسی کی بہن اور کسی کی بیٹی ہے۔ہم اپنی بہن،بیٹیوں کوایسی حرکات کی اجازت نہیں دیتے تو پھر یقینی طور پر جوعورتیں غیر مردوں سے تحائف وصول کرتیں ہیںوہ بھی اپنے ماں،باپ اور بہن بھائیوں سے چوری ،چھپکے ویلنٹائن ڈے مناتی ہیں۔اہل مغرب کی نظر میں زناجائز جبکہ ہمارے دین اور قانون فطرت کے مطابق یہ لعنت قطعی حرام ہے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اہل مغرب کے عقائدونظریات اورہمارے عقائد ونظریات ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں تو پھر ہم اُن کے تہوار کیوں مناتے ہیں؟مسلمان غور کریں تو اُنھیں معلوم ہوکہ کافروں نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے یہ بات ثابت ہوکہ وہ ہمارے عقائدونظریات کو درست تسلیم کرتے ہیں۔ہم بات کرتے ہیں ادائیگی فرائض کی جبکہ اہل مغرب بات کرتے ہیں حقوق کی۔

ادائیگی فرائض ایسا عمل جوانسانی حقوق کی بحالی کا واحد راستہ ہے۔خیر یہ الگ اور طویل موضوع ہے۔ہر سال دوسر ے مہینے یعنی 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانے کی روایت کے بارے میں تو کئی اورکہانیاں بھی موجود ہیں تاہم کچھ لوگوں کے خیال میںپاکستان میں ویلنٹائن ڈے کی روایت کو فروغ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ملا۔ان کے دور حکومت میں جہاں دیگر متعدد ثقافتی پہلوئوں کو اجاگر کیا گیا وہیں ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے تقریبات اور گہما گہمی بھی میڈیا کی بدولت دیکھی گئی۔جبکہ راقم کا یہ ماننا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں میڈیا کو فروغ ملااور میڈیا نے اظہار رائے کی آزادی کے نام اپنے نظریات کو عام کرنے کی بھر پور کوشش کی۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر: امتیاز شاکر
imtiazali470@gmail.com