ویلنٹائن ڈے اور اصلاح معاشرہ

Pak Valentine Day

Pak Valentine Day

تحریر : تنویر احمد
اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا تو اس کے اندر طرح طرح کے جذبات بھی رکھ دیئے ۔انسان کو جو خوبصورت جذبات عنایت ہوئے ہیں ،ان میں سے ایک جذبہ محبت بھی ہے ۔محبت ایک طاقتور انسانی جذبہ ہے ، ایک ایسی قوت جو کسی کی زندگی کو برباد کر سکتی ہے اور آباد بھی کر سکتی ہے اور اگردیکھا جائے تو باقی جذبات کے مقابلے میں یہ ایک بہت ہی شدید ترین جذبہ ہے۔ مغربی دنیا بظاہر اسی حوالے سے ویلنٹائن ڈے منا رہی ہے۔ اس دن مختلف شکلوں، رنگوں اور سائزوں کے بنے ہوئے دل، پھول اور چاکلیٹس نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور چیزیں بھی ہیں جنہیں محبت کی نشانی سمجھ لیا گیا ہے۔ عموماً ویلنٹائن ڈے کو پھولوں اور گلابوں کا دن کہتے ہیں۔ اس دن کی ابتداء کے متعلق کئی روایات ہیں لیکن سب سے زیادہ قابل بھروسہ روایت کے مطابق اس دن کا تعلق قدیم رومیوں کے ایک دیوتا کے مشرکانہ تہوار سے ہے۔ یہ تہوار 15 فروری کو منعقد ہوتا تھا اس دن لڑکیوں کے نام ایک برتن میں ڈال دئیے جاتے اور مرد دیکھے بغیر جس لڑکی کا نام نکالتے وہی تہوار کے ختم ہونے تک اس کی ساتھی بن جاتی۔جب روم میں عیسائیت کو فروغ ملا تو اس فحش لیکن مقبول عام تہوار کو عیسائیت کا جامہ پہنانے کی اس طرح کوشش کی کہ لڑکیوں کے ناموں کی بجائے اولیاء (Saints) کے نام ڈال دئیے گئے۔ اب جس Saint کا نام نکلتا، مرد حضرات کو اس کی تقلید سارا سال کرنا پڑتی۔ ایک اور روایت کے مطابق اس کا تعلق Saint Valentine سے ہے جس کو شاہ Claudius نے 14 فروری کو اس جرم میں قتل کروادیا کہ وہ اس کے فوجیوں کی خفیہ طور پر شادیاں کرواتا جن کو شادیوں کی اجازت نہ تھی دوران قید اس کو جیلر کی بیٹی سے پیار ہوگیا اور اس نے لڑکی کو خط لکھا جس کے آخر میں دستخط کیے تمہارا Valentine یہ طریقہ بعد میں لوگوں میں رواج پاگیا۔ 496ء میں پاپائے روم Gelusius نے سرکاری طور پر 15 فروری کے مشرکانہ تہوار کو یوم Saint Valentine میں تبدیل کردیا۔

اس دن کو منانے کی ابتداء کسی بھی طرح ہوئی آج یہ تہوار مشکرانہاور فضول روایات کی طرح لوٹتا نظر آتا ہے۔ فرانس میں اس تہوار نے سخت مشکلات پیدا کیں اور 1776ء میں اسے مکمل طور پر ممنوع قرار دیا گیا۔ اس تہوار سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے دلوں کے جذبات کی آگ کو بھڑکایا جاتا ہے اور انہیں کسی خاص محبوب کی ضرورت کا احساس دلایا جاتا ہے۔ یہ تہوار پاکستان میں بھی عام ہوتا جارہا ہے۔ بظاہر معصوم اور بے ضرر نظر آنے والی ان چیزوں میں جنسی آزادی اور لڑکے لڑکیوں کے آزادانہ تعلق کو فروغ دیا جاتا ہے۔ساتھ ہی جذبات کے آزادانہ اور کھلے اظہار کو بھی عام کیا جارہا ہے۔ حتی کہ تعلیمی ادارے بھی اپنے طالب علموں کے لیے اس قسم کی پارٹیز منعقد کرانے میں پیچھے نہیں رہتے۔ نتیجتاً نوجوان اپنی پسند کے فلمی گانے گنگناتے دن دیہاڑے نظر آتے ہیں۔ ایسی ایسی خوشیوں کا اظہار ہوتا ہے گویا کہ یہ کوئی شرعی اور ہم مسلمانوں کی خاص عید ہے۔ عشق و محبت کے اظہار و تجدید کے لیے نوجوان لڑکے لڑکیاں اس عید کی مناسبت سے مبارک بادی کے کارڈز کا تحفہ ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس کارڈ پر Be My Valentine لکھا ہوتا ہے یعنی میرے ویلنٹائن (محبوب) بنو۔

اس موقعہ پر اس کثرت سے پھول بکتے ہیں کہ ایک سروے کے مطابق دنیا میں پھولوں کا چالیس فیصد حصہ اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر حقیقی محبت مفقود ہو تو اسے پھولوں کے ذریعے سے واپس نہیں لایا جاسکتا۔ دونوں جنس اور عمومی طور پر غیر محرم لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو چاکلیٹ اور مٹھائیوں کا ایک پیکٹ بطور ہدیہ پیش کرکے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ مغربی ممالک کی تقلید میں بعض مشرقی ممالک اس موقعہ پر خصوصی اجتماع کا اہتمام کرتے ہیں جس میں مرد و عورت کا اختلاط اور ایسے حیا سوز فواحش و منکرات کا ارتکاب ہوتا ہے جس کی مثال صرف حیوانوں کے یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔ عشق و محبت کے اس سارے خبط میں اسلام پس پشت ڈال کر اللہ کا خوف دل سے نکال دیا جاتا ہے اور اسلامی تعلیمات کا سرعام مذاق اڑایا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ویلنٹائن ڈے کیوں منارہے ہیں؟ کیا یہ ہمارا قومی تہوار یا دینی تہوار ہے؟۔

ALLAH

ALLAH

حضرت ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں (یہود و نصاری) کی قدم بقدم پیروی کرو گے، اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم لوگ اس میں بھی داخل ہونے کی کوشش کرو گے۔ آپۖ سے پوچھا گیا کہ پہلی قوم سے آپۖ کی مراد یہود و نصاری ہیں؟ آپۖ نے فرمایا: پھر اور کون؟ (صحیح بخاری و مسلم) دوسرے مقام پر آپۖ نے فرمایا ”جس نے کسی قسم کی مشابہت (طور طریقہ) اختیار کی، وہ کل قیامت کے دن انہی میں سے شمار کیا جائیگا” (ابو دائود) اپنے آپ سے پوچھئے کیا میں نے کبھی اس ہستی سے محبت کرنے کے بارے میں سوچا ہے جس ہستی نے عظیم الشان محبت سے مجھے پیدا کیا جس نے مجھے وہ دل دیا جو محبت کو محسوس کرسکتا ہے، میں کتنی بار اس کی محبت میں رویا؟ کیا ایسا تو نہیں کہ وہ خوبصورت جذبہ جو ہمیشہ قائم رہنا چاہیے، میں اس کونفس کی وقتی تسکین میں ضائع کررہا ہوں اورہماری اس ناشکری کے باوجود وہ مہربان ہستی ہم سے محبت ہی کرتی ہے۔ اپنے آپ سے پوچھئیے؟ کیا میں رسول اللہۖ سے محبت کرتا ہوں؟ جنہوں نے فرمایا ! قسم ہے اس ذاتکی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں جب تک وہ مجھے اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبت نہ کرے (صحیح بخاری)۔ کیا ویلنٹائن ڈے خواہشات نفس کی پیروی کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ کیا ہم حیوانوں کی طرح بنا سوچے سمجھے فقط اپنے وقتی جذبات اور گندے فرسودہ مغربی رواج کی پیروی نہیں کررہے؟ اسلام میں لڑکے لڑکی کی دوستی بالکل منع ہے لیکن آج دیکھ لیں، کتنے لڑکے لڑکیاں موبائل فون پر کھلم کھلا دوستیاں کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایک عورت کے اوصاف یوں بیان کیے گئے ہیں۔ ”پاکیزہ ، نہ شہوت پرست، نہ خفیہ دوست بنانے والیاں۔۔۔” (النساء ٢٥)۔

موجودہ زمانے میں محبت اپنی اصل شکل کھوکر ایک غیرحقیقی جوش و جذبہ کی شکل اختیار کرچکی ہے جس کے نتیجے میں سطحی اور وقتی نوعیت کے غیر اخلاقی اور غیر شرعی تعلقات نے جنم لیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ذہن میں کئی سوالات اٹھتے ہیں کہ یہ کیسی محبت ہے جس نے ۔۔۔! (1) اس خوبصورت جذبہ کو نفسانی خواہشات کی پیروی تک محدود کردیا ہے (2) ہماری معاشرتی اقدار کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ (3) ہمارے اندر سے رحمت او شفقت کو ختم کردیا ہے (4) ہمیں ایک دوسرے سے متنفر اور جدا کردیا ہے۔ (5) ہم سے غلط اور درست کی پہچان ختم کردی ہے گویا ہم نے اوروں کے طریقوں کو اپنا لیا ہے۔ ایک مسلمان کو حقیقی محبت اپنے رب سے ہوتی ہے اور وہ ذات جو ازل سے ابد تک قائم ہے۔

مسلمانوں کے اظہار محبت کے لیے دو دن پہلے سے موجود ہیں اور وہ ہیں عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ عیدالفطر سے قبل مسلمان روزہ رکھ کر اللہ کی اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بھوکا پیاسا رہ کر اپنے غریب بھائیوں کی بھوک و پیاس اور دکھ درد کا احساس بھی کرتے ہیں اور اس کا شکرانہ زکوٰة و فطرانہ وغیرہ کی صورت میں غریبوں کی مدد کرکے عیدالفطر کے دن کرتے ہیں۔ اسی طرح عیدالاضحی کے دن مسلمان صرف اللہ کی رضا مندی اور سنت ابراہیمی ۖ کی پیروی میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور یوں اسلام اور مسلمانوں کیلئے ہر قربانی دینے کا عزم کرتے ہیں۔ کیا ہماری زندگی میں ایسی خالص اور مضبوط محبت ہے؟ اب ہم سوچیں کہ ہم ویلنٹائن ڈے منا کر ہم سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہیں، اپنی ذات اور خواہشات سے یا اپنے رب سے؟ ایک مسلمان کی محبت بامعنی اور اظہار بامقصد ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”آپ کہہ دیجئے کہ بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے” (انعام 162)۔

Tanveer Ahmad

Tanveer Ahmad

تحریر : تنویر احمد