تحریر : کوثر ناز معاشرے کو ضرورت ہے محبت کی امن کی بھائی چارے کی، تبھی معاشرہ مثالی معاشرہ بن سکتا ہے تبھی ہمیں عروج نصیب ہوسکتا ہے تبھی ہماری پہچان بن سکتی ہے، تبھی ہم ترقی کی راہوں پر سفر کر سکتے ہیں یوں لڑ جھگڑ کر تو کسی کو کبھی عروج نصیب نہیں ہوا ناں؟کیا آپ محبت کا دن مناتے ہیں ؟ لیکن کیا آپکو محبت منانے کے لیئے ایک مخصوص دن کی ضرورت ہے؟ ہمارا نہیں خیال کہ ایسا ہوگا کیونکہ ہماری قوم تو ہر پل محبت کرتی ہے اور بہت محبت کرتی ہے ایمان سمجھ کر کرتی ہے لیکن صرف ایسی محبت جو چھپا کہ کی جاتی ہے۔ ویلنٹائن ڈے گیر ملکی تہوار ہے غیر مسلم بڑے شوق سے مناتے ہیں یہ محبت کرنے والوں کا دن مانا جاتا ہے سو اس حساب سے لاکھوں لڑکے لڑکیاں محبت کرنے والے جوڑے لورز پوائنٹ ، ہوٹلز اور پارکس میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور اسے برا گردانا بھی نہیں جاتا۔
اس معاشرے کی بات ہے جہاں والدین بزرگ ہوتے ہی اولڈ ہومز میں شفٹ کر دیئے جاتے ہیں جہاں محبت کے نا م پر آزادی ملتی ہے معاشرتی اقداروں کی کوئی حد مقرر نہیں یا جن کا دینِ اسلام جسے خوبصورت مذہب سے کوئی تعلق نہیں لیکن اگر پاکستان میں دیکھا جائے تویہاں بھی ہندوانہ رواج خاصے زور پکڑ چکے ہیں ، پھر چاہے بات ہو شادیوں میں فضول رسومات کی یا بسنت پر پتنگ بازی کی یا پھر ویلنٹائن دے پر گھروں سے باہر نکل کر ملنے کی یا ہوٹلوں اور پارکوں کی رونق بننے کی ااتنا ہی نہیں تعلیمی ادروں میں گلابوں کی دکانیں بھی اسی دن لگتی ہیں بس اسٹنڈز پر بھی آپکو اکثر نظر آئیں گی۔
نوجوانان پاکستان یا معمار پاکستان کو ویسے بھی اپنے مشاغل سے فرصت نہیں ملتی ایسے موقعوں پر تو انکے جذبات سورج کی مانند سوا نیزے پر جا پہنچتے ہیں یا دماغوں کی طرح ساتویں آسمان پر، 14 فروری کو شروع سے ہی ہم نے اسکول یا کالج جاتے ہوئے بڑے اسٹوڈینٹس کو بس اسٹاپز پر ہاتھوں میں گلاب تھامے دیکھا ہے اور اب بھی انکت مشاغل یہی ہیں ہم قطعی نہیں کہتے محبت گناہ ہے مگر ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ محبت کی تشہیر سڑکوں یا پارکس میں نہیں کی جاتی ہے اگر آپ لوگوں کی محبتیں عزتوں سے منسوب ہیں تو عزتوں کو سڑکوں یا ہوٹلوں کی زینت نہیں بنایا جاتا ہے۔
Valentine Day Gift
میں خصوصاً لڑکیوں سے مخاطب ہوں کہ اور اگر عزتوں سے منسوب نہیں تو پھر کیا آپ وقت گذاری کا سامان ہیں ایسے عمل تو ہمیں اندھیروں کی سمت دھکیلتے ہیں آپ جس معاشرے کا حصہ ہیں آپ جس مذہب کے پیروکار ہیں وہ آپکو یوں جھوٹی محبت کے ہاتھوں سڑکوں کی زینت بننے کی اجازت نہیں دیتا ہے نہ ہی محبت کے نام پر آپکو غیر محرم کی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے کی اجازت دیتا ہے یہ اجازت تو آپکو آپکے گھر والے اپکا معاشرہ بھی نہیں دیتا ہے تو پھر کس بنیاد پر محبت کا دن باہر سڑکوں یا پارکس میں مناتے پھر رہے ہیں ؟ کس بنیاد پر گھروں میں جھوٹ بول کر محبتوں کو امر کرتے ہیں؟ یہ تو حقیقت ہے ناں کہ اگر آپ صحیح ہیں تو آپکو چھپانے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر محبت غلط کرتے ہیں تو پھرآپکو غلط کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ کس بنیاد پر آپ گناہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کس بنیاد پر آپ اپنے دنیاوی محبوب کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوئے گھروں سے باھر اپنی عزتوں کوکسی اور کے بھروسے دے کر نکل جایا کرتی ہیں؟ کیا آخرت کے روز آپکا نامہ اعمال آپ کے محبوب نے اپنے ہاتھ میں لینے کا ارادہ باندھا ہے یا آپ میں اتنی ہمت ہے کہ گنای کرکے خدا کے سامنے کھڑے ہوپایئں؟ آپکو محبت اور محبوب یاد رہتا ہے کبھی خدا یاد رہتا ہے؟ کیا آپکو آخرت کا حساب کتاب یاد رہتا ہے؟ کیا آپکو قبر یاد رہتی ہے؟ جو آپکو روزانہ ستر مرتبہ یاد کرتی ہے، یا پھر آپکو لگتا ہے کہ آپکی محبت کو ہر شے سے استثنعی حاصل ہے۔
ویلنٹائن ڈے نہ ہمارا تہوار ہے نہ محبت کے اظہار کا کوئی دن مخصوص ، محبت دلوں میں ہو تو معتبر رہتی ہے سڑکوں پر جب نکلتی ہے تو آپکے دامن میں رسوائی و ذلت کے داغ چھوڑ جاتی ہے اور پاکیزہ محبت کو ضرورت نہیںانگریزوں کے تہوار منانے کی سر ضرورت ہے جائز محبتیں کرنے کی جس کی اجازت معاشرہ بھی یتا ہے اسلام بھی اور آپکے گھریلو اقدار بھی۔