ویلنٹائن ڈے کا پس منظر یہ ہے کہ یہ ایک خاص رومی عید ہے۔ اس کی ابتدا تقریباً 1700 سال قبل ہو ئی تھی کہ پادری ویلنٹائن تیسری صدی عیسوی کے آخر میں رومانی بادشاہ کلا ڈ یس ثانی کے زیر حکومت میں رہتا تھا۔
کسی نافرمانی کی بنا پر بادشاہ نے ویلنٹائن پادری نامی شخص کو جیل بھیج دیا۔وہاں جیل کے ایک چوکیدار کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہو گئی اور وہ اس کا عاشق ہو گیا، یہاں تک کہ اس لڑکی نے نصرانیت قبول کر لی اور اس کے ساتھ اس کے 46 رشتہ دار بھی نصرانی ہو گئے۔ وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کی زیارت کے لیے آتی تھی۔
جب بادشاہ نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے (ویلنٹائن) نامی شخص کو پھانی کی سزا سنا دی۔ پادری کوجب یہ پتہ چلا تو اس نے یہ ارادہ کیا کہ اس کا آخری لمحہ اس کی دوست کے ساتھ ہو۔ چنانچہ اس نے اس کے پاس ایک کارڈ ارسال کیا جس پر لکھا ہو ا تھا ”ویلنٹائن کی طرف سے” پھر اسے 14 فرروی 240ء کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد یورپ کی بہت سی بستیوں میں لڑ کوں کی طرف سے لڑکیوں کو کارڈ بھیجنے کا رواج چل پڑا۔
محبت کوئی بری بات نہیں، اگر اسے اسلامی رو سے کی جائے۔ بہترین محبت وہ ہے جو اپنے دین سے اپنے رب سے، اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور وہ محبت بہت پیاری ہے جو اپنے ماں باپ، بہن بھائی، بیٹی، بیٹا اور بیوی سے کی جائے۔ نامحرم لڑکے اور لڑکی کا کوئی رشتہ نہیں ہو تا ہے۔
Valentines Day Roses
فروری کی 14 تاریخ آتے ہی مسلمانوں کے معاشرے میں بھی سر خ رنگ، سرخ گلاب، سرخ رنگ کے گل دستے، سرخ رنگ کے ریپرز، سرخ رنگ کی آرائش، سرخ رنگ کے اخبارارت، سرخ رنگ کے میگزینز اور اگر آگے بات کی جائے تو ٹی وی چینلز بھی سرخ دکھائی دیتے ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران یہ تہوار جس تیزی سے مقبول ہوا ہے اس کی روشنی میں یہ کہنے میں کو ئی حرج نہیں ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی اسی جانب تیزی سے دوڑ رہا ہے۔ آج پورے مسلم امہ میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اس دن کو بہت زور و شور سے منا رہے ہیں۔
لیکن افسوس! کہ آج ہم ایک نصرانی کی یاد میں وہ بھی ایک ناجائز تعلق کے دن کو مسلمان بڑے احترام سے مناتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک خالص اور پرستانہ عیسائی عقیدہ ہے۔ جسے ایک کافر نصرانی شخصیت کی یاد میں منائی جاتی ہے اور اس کی آڑ میں معاشرے میں بے حیائی اور عریانی دن بدن بڑھ رہی ہے۔
لہٰذا کسی مسلمان کیلئے اس ویلنٹائن کو منانا، کسی کو مبارکباد دینا، کارڈ ارسال کرنا، لال رنگ کے کپڑے پہننا، گلاب کا پھول دینا، یا اس دن کی نسبت کسی کو تحائف دینا یا نشانی کے طور پر کوئی چیز دینا یا کسی بھی قسم کا کوئی تعاون کرنا دین اسلام میں یہ سب حرام ہے۔ کیوںکہ مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا قیامت والے دن وہ ان میں سے ہو گا۔
Holy Quran
لہٰذا اس تہوار کو منانے سے بے حیائی، فحش کاری اور بدکاری مزید بھڑتی ہے۔ قران پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔