ویلنٹائن، یوم بے حیائی و اوباشی

Valentine's Day

Valentine’s Day

تحریر: تنویر احمد
چند سال قبل کی بات ہے 14 فروری کا دن عام دنوں کی طرح آتا اور چپکے سے گزر جاتا۔ کوئی اس دن کی خصوصیت سے آشنا تھا نہ کوئی ویلنٹائن کو جانتا تھا اور نہ کیو پڈ کے کارناموں سے آگاہ تھا۔ اب کی طرح اس دن کوئی ہنگامہ ہوتا تھا نہ کوئی دل آویز واقعہ سننے کو ملتا۔ ایک عشرے میں نہ جانے کہاں سے وبا آئی کی پاکستان میں بھی بڑے اہتمام سے ویلنٹائن ڈے منایا جانے لگا۔ مغربی تہذیب نے مشرق کا رُخ کیا اور بے ہودگی و بے حیائی کا ایک سیلاب امنڈتا چلا آیا۔ اب 14فروری کے آتے ہی ویلنٹائن ڈے کی تیاری ہونے لگیت ہے۔ میڈیا پہ خصوصی تشہیر اور پروگرام ہوتے ہیں۔ نسل نو مقصد حیات سے لا پرواہی ہوکر بے ہودگی کے وہ کھیل کھیلتی ہے کہ شیطان بھی شرمندہ ہوتا نظر آتا ہے ۔ پہلے پہل یہ وبا خاص طبقے تک محدو تھی ‘آہستہ آہستہ خاص و عام کی تمیز بھی ختم ہوگئی اور ہر طبقے کا فر د اس کی زد میں آگیا اور تو اور ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی اس بے حیائی کا باقاعدہ سبق دیا جانے لہگا ہے۔

14فروری کو آپ بھی نظارہ کر سکتے یہں ، ویلنٹائن ڈے جسے ہم اپنی تہذیب کے منافی کہتے نہیں تھکتے ، کی سب سے زیادہ دھوم ہمارے ہی محلوں اور گھروں میں پائی جاتی ہے ۔ کالج کی بات جانے دیں ، پرائمری کے طلبئا و طالبات بھی اب پابندی سے ویلنٹائن ڈے منانے لگے ہیں۔حالانکہ یہ دن منانے والوں کی ایک بڑی تعداد اس کی حقیقت و معنویت سے نا واقف ہوتی ہے مگر فلموں اور ٹی وی اشتہارات کے ذریعہ انہیں اتنا ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اونچی سوسائٹی اور پوش کلچر کے چونچلے ہیں اور یہ کہ اس کے نہ منانے والے پسماندہ اور دقیانوسی کہلاتے ہیں، لہٰذا خوشی خوشی عشق فرمانے کا کارنامہ انجام دینے لگتے ہیں اور کم عمری میں ہی بالغ ہو جانے کا کریڈٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ اس دن کا انتظار بڑی شدت سے کرتے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے گدھ کسی جانور کے مرنے کا۔ ویلنٹائن ڈے کی تاریخ ہمیں روایات کے انبار تلے دبی ملتی ہے۔ روایات کے یہ دفتر اسرائیلیات سے بھی بد تر درجے کی چیز ہیں ، جہاں تک ویلنٹائن کا تعلق ہے جس کے نام سے یہ دن منسوب کیا گیا ہے تو اصل حقیقت یہی ہے کہ کوئی مستند روایت اس کے متعلق نہیں ہے ، یہاں تک کہ اس نام کے بھی کئی ایک سے زائد افراد کا ذکر ہے جس سے مختلف روایات منسوب ہیں۔

14فروری اور ویلنٹائن کے متعلق ایک روایت یہ یہ کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ، ایک راہبہ (NUN) زلف گرہ گیر کا اسیر ہوگیا ۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا ، اس لیے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ 14فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ جسمانی تعلقات بھی قائم کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائیگا ۔ راہبہ نے اس پر یقین کرلیا اور دونوں جوش عشق میں سب کچھ کر گزرے ۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی ان دونوں کو قتل کر دیا گیا ۔ کچھ عرصے بعد چند لوگوں نے انہیں محبت کا شہید جان کر عقیدت کا اظہا ر کیا اور ان کی یاد میں یہ دن منانا شروع کر دیا۔

پاکستان میں یہ تہوار بر گر فیملیز ،، مختلف این جی اوز اور نام نہاد قلم کاروں کے ذریعے اپنے پائوں پھیلانے کی کوششیں کر رہا ہے اس کے علاوہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھرپور طریقے سے اس کی تشہیرکر رہا ہے ۔ رہی پرنٹ میڈیا کی بات تو وہ بھی آہستہ آہستہ اسی نقش قدم پر چل رہا ہے ۔ سینٹ ویلنٹائن ڈے کے بارے میں فضول دلائل کے ذریعے مسلمانوں کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس تہوار کو منانے میں دینی اعتبار سے کوئی حرج یا برائی نہیں ہے ۔ یقیناً آزاد خیال لوگوں کے لیے اس تہوار میں اعتراض والی کوئی چیز نہیں ہے لیکن وہ اس حقیقت سے کیوں آنکھیں چراتے ہیں کہ اگر اس تہوار میں کوئی برائی نہیں تھی تو یورپ کے بعض ملکوں نے اس پر کیوں پابندی عائد کی تھی !! کیا یورپ و امریکا میں عیسائی قوم بھی اسی شان و شوکت سے مسلمانوں کا کوئی تہوار مناتی ہے ؟ لازما اس کا جواب نفی میںہے۔ہندئووں نے ایک عیسائی سینٹ یولنٹائن ڈے کا تہوار ہندوستان میں منانے کو اپنی ثقافت پر حملہ قرار دیا ۔ سوچیے! ایک غیر مسلم دوسرے غیر مسلم کے تہوار کو اپنی ثقافت کے لیے خطرہ قرار دے رہا ہے اور ایک ہم ہیں کہ والہانہ انداز میں غیر مذہب کے تہوار کا خیر مقدم کر رہے ہیں ۔ مذہب سے قطع نظر ا گر ذاتی حوالے سے دیکھیں تو بھی ایک شریف اور سنجیدہ شہری کے یلہے یہ سوائے بے ہودگی کے کچھ نہیں ۔ کیا کوئی غیرت مند اس بات کو برداشت کرے گا کہ کسی غیر مرد کا پیغام الفت اس کی بیوی ، بیٹی یا بہن کے لیے آئے یا وہ ٹی وی ، ریڈیو اور اخبارات کی زینت بنے ۔ حقیقت یہ یہ کہ اس تہوار کے ذریعے ہماری اسلامی روایات کو تباہ اور معاشرتی اقدار کو برباد کرنے کی سازش ہو رہی ہے ۔ مغرب اور غیر مذاہب کے تہوار منانے کے یہ کون سے طریقے ہیں اور ان کی سر پرستی کیا معنی رکھتی ہے ! سینٹ ویلنٹائن کی بے معنی اور غیر اخلاقی محبت کا پرچار کرنے والے اپنی تہذیب پر بد نما داغ ہیں ۔ پاکیزہ جذبوں کے حوالے سے یورپ یا امریکا ہماری کای رہنمائی کریں گے جو خود ان لطیف جذبوں سے نا آشنا اور گمراہیوں کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ما رہے ہیں۔

ویلنٹائن ڈے کے اس تاریخی پس منظر سے آگاہی کے بعد کوئی صاحب بصیرت انسان اس بات سے انکاری نہیں ہو سکتا ہے کہ یہ یوم اوباشی کلی طو رپر فحاشی ، عریانی ، بے حیائی اور بد تہذیبی پر مبنی ہے ۔ باعث افسوس ہے کہ اب مسلمان بھی اس بے حیا ، بے شرم اور دوسروں کی بیٹیوں کی عزت پر ڈاکہ ڈالنے والے عیسائی پادری کی روایات کو زندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

تاریخ ویلنٹائن کو محبت کا جذبہ رکھنے والا ایک بزرگ کہیں یا بد کردار انسان ، یہ ایک الگ بحث ہے مگر یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ ویلنٹائن ڈے بے حیائی کو فروغ دینے کا باعث ہے ۔ اس کا مقصد صرف اور صرف عورت اور مرد کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور جنسی بے راہ روی کو محبت کا لبادہ پہنانا ہے ۔ ایک مسلم معاشرہ اس بات کو قطعی طور پر اجازت نہیں دیتا کہ ایک مرد غری عورت کو یا ایک عورت کسی غیر مرد کو پھول پیش کرے اور اس کے ساتھ اخلاقیات کی حد و د عبور کر لے ۔ چاکلیٹ ، کارڈز اور پھولوں کے تحفوں کے ساتھ ساتھ ول اسٹوریز پر مشتمل کتب اور فحش فلمیں ایک دوسرے کو پیش کریں ۔ یہ رسومات اہل مغرب کے لیے تو ٹھیک اور بھلی ہیں مگر ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں ! ویلنٹائن ڈے منانے کا مطلب مشرک رومی اور عیسائیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے اللہ کے رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا : جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔
( احمد ، ترمذی )

بلا شبہ موجودہ دور میں ایک سازش کے تحت ویلنٹائن ڈے ایک متاثر کن تہوار کے طور پر منانے کا مقصد ایمان اور کفر کی تمیز کے بغیر تمام لوگوں کے درمیان محبت قائم کرنا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار سے دلی محبت ممنوع ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ ۖ نہیں دیکھیں گے ان لوگوں کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ۖ کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہیں خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان کے لوگ ہی ہوں ۔ ( المجادلہ )

کون نہیں جانتا کہ ویلنٹائن ڈے پر نکاح کے بندھن سے قطع نظر ایک آزاد اور رومانوی قسم کی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے جس میں لڑکے لڑکیوں کا آزادانہ ملاپ ، تحائف اور کارڈز کا تبادلہ اور غیر اخلاقی حرکات کا نتیجہ زن ااور بد اخلاقی کی صورت میں نکلتا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ہمیں مرد اور عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر کوئی اعتراض نہیں ، اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے عفت مطلوب نہیں واور اپنے نوجوانوں سے پاک دامنی درکار نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا ارو آخرت میں درد ناک عذاب ہے ۔ ( النور)

نبی اکرم ۖ نے جو معاشرہ قائم فرمایا اس کی بنیاد حیا پر رکھی جس میں زنا ہی نہیں ، اس کے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم تھا ۔ مگر اب لگتا ہے کہ آپ ۖ کے امتی حیا کے اس بھاری بوجھ کو زیادہ دیر تک اٹھانے کے لیے تیار نہیں بلکہ اب وہ حیاء کے بجائے وہی کریں گے جو ان کا دل چاہے گا ۔ فرمان نبوی ۖ ہے : جب تم میں حیا نہ رہے تو جو تمہارا جی چاہے کرو۔ (بخاری )

Tanveer Ahmad

Tanveer Ahmad

تحریر: تنویر احمد
0331-7330200