بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) ایک بھارتی عدالت نے کہا ہے کہ وادی میں رہنے والے دیگر ہندو کشمیری پنڈتوں کے لیے مختص حکومتی مراعات کے حقدار نہیں ہیں کیونکہ صدیوں پرانی اپنی ایک مخصوص شناخت، روایات اور تہذیب رکھنے والے کشمیری پنڈت ان سے مختلف ہیں۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے اس تازہ فیصلے پر وادی میں رہنے والے ہندوؤں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ انہیں بھی ملازمتوں کے لیے وزیر اعظم کے خصوصی پیکج اور دیگر حکومتی اسکیموں میں کشمیری پنڈتوں کی طرح ہی خصوصی مراعات دی جائيں۔ ہائی کورٹ نے تاہم ان کی درخواست مسترد کر دی۔
ہندو گروپوں نے اپنی عرضی میں دلیل دی تھی کہ عسکریت پسندی کے دوران انہیں بھی کشمیری پنڈتوں کی طرح مصائب کا شکار ہونا پڑا ہے۔ لہذا وہ بھی کشمیری پنڈتوں کی طرح ہی حکومت کی طرف سے خصوصی ملازمتی پیکج کے حقدار ہیں۔
سن 1990کی دہائی میں وادی میں عسکریت پسندی کے پھيلاؤ کی وجہ سے ہزاروں کشمیری پنڈتوں کو وادی سے ہجرت کرنی پڑ گئی تھی۔حکومت اب ان کی واپسی اور ان کی آبادکاری کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ اس میں وزیر اعظم کاخصوصی ملازمتی پیکج بھی شامل ہے۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جج جسٹس سنجیو کمار نے تاہم ہندو گروپوں کی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ (کشمیری پنڈتوں) کا گروپ علیحدہ شناخت رکھنے والی مخصوص برادری ہے۔ جس کی شناخت، ثقافت،تہذیب، روایات اور رہن سہن وادی میں رہنے والے دیگر ہندوؤں بشمول راجپوتوں، کشمیری پنڈتوں کے علاوہ دیگر براہمنوں، شیڈولڈ کاسٹ، شیڈولڈ ٹرائب اور بہت سے دیگر گروپوں سے بالکل مختلف ہے۔
انہوں نے کہا،”دیگر گروپوں کو کشمیری پنڈتوں کے ساتھ شامل کرنا غیر منطقی ہے، اس لیے اس درخواست کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔”
جسٹس سنجیو کمار نے اپنے فیصلے میں مزید کہا،”اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عمومی طور پر کشمیری پنڈت سے مراد کشمیری زبان بولنے والی برہمنوں کی ایک ایسے برادری ہے، جو وادی میں نسلوں سے آباد ہے اور اس کی اپنی مخصوص لباس، رہن سہن اور روایات ہیں۔ لہذا اس دلیل کو تسلیم کرنا مشکل ہے کہ کشتریوں، راجپوتوں، شیڈولڈ کاسٹ، غیر کشمیری برہمنوں کو بھی کشمیری پنڈتوں کی طرح سمجھا جائے اورانہیں بھی وزیر اعظم کے اس نئے امدادی پیکج کا فائدہ ملنا چاہيے جس کا اعلان مہاجر کشمیری پنڈتوں کی وادی میں واپسی اور آبادکار ی کے لیے کیا گیا ہے۔”
سن 2009 میں اس وقت کی ڈاکٹر من موہن سنگھ حکومت نے کشمیری پنڈتوں کی آبادکاری کے لیے ایک پرائم منسٹر پیکج شروع کیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت کشمیری پنڈتوں کے لیے 6000 سرکاری ملازمتوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ 4000 پوسٹس پہلے ہی پر ہو چکی ہیں لیکن حکومت نے مزید 2000 عہدوں کے لیے گزشتہ برس نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ سکھ کمیونٹی نے بھی وزیر اعظم کی مذکورہ اسکیم کے تحت فائدہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی لیکن عدالت اسے پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔
نئی ترمیم شدہ اسکیم کے تحت حکومت نے ان کشمیری پنڈتوں کے لیے ملازمتیں مخصوص کرنے کا اعلان کیا جنہوں نے کشمیر سے ہجرت نہیں کی۔ ایسے امیدواروں کو متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کی جانب سے ‘غیر مہاجرت‘ کا ایک سرٹیفکیٹ پیش کرنا تھا۔ ڈپٹی کمشنروں نے غیر کشمیری پنڈتوں کو تاہم اس طرح کا سند جاری کرنے سے انکار کردیا۔
متاثرہ ہندوؤں نے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی اور کہا کہ حکومتی اسکیم کا فائدہ صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود نہیں رکھا جانا چاہیے۔
کشمیری ہندوؤں کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 300سے 400 برس قبل سکھ اور پٹھان دور حکومت سے ہی وادی میں آباد ہیں۔”کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے سے پہلے سے ہی ان کے پاس ڈومیسائل سرٹیفیکٹ موجود ہے۔ انہیں سن 2010 مردم شماری میں کشمیری ہندو غیر مہاجر کے طور پر درج کیا گیا تھا لیکن سن 2020 میں جب انہیں سرکاری ملازمت ملنے کی امید تھی، تو باہر کر دیا گیا۔”
کشمیری ہندوؤں کی ایک تنظیم کے رہنما کا کہنا تھا کہ عدالت کے اس فیصلے سے انہیں کافی تکلیف پہنچی ہے اور وہ اس کے خلاف اعلی عدالت میں اپیل کرنے پر غور کررہے ہیں۔
بعض کشمیری ہندوؤں کا کہنا ہے کہ یہ ہندوؤں کے درمیان ہی تفریق پیدا کرنے کی کوشش ہے۔آخر وہ کشمیری پنڈتوں سے کس طرح مختلف ہیں جب کہ ایک ہی زبان بولتے ہیں اور ایک ہی جگہ صدیوں سے آباد ہیں؟