تحریر: مولوی محمد صدیق مدنی۔ چمن پاکستان اس وقت یوں تو کئی مسائل سے دو چار ہے، ڈرون حملوں کی مصیبت بھی ہے، دہشت گردی کا عذاب بھی ہے، بیرون ملک قرضوں کے بوجھ سے بھی قوم کے کندھے زیربار ہیں۔ لیکن ایک اور انتہائی خاموش طریقے سے بھی ہماری جڑوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے اور اس جنگ کو بڑی کامیابی سے ہم خود اپنے خلاف لڑ رہے ہیں اور یہ جنگ ثقافتی جنگ ہے۔ ہماری اقدار، ثقافت اور روایات کو ہم خود اس طرح پامال کر رہے ہیں کہ ہمارے لیے کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں اور سچ پوچھیئے تو یہی اپنی اقدار سے دوری ہمارے بہت سارے مصائب کا باعث بن رہی ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس سب کچھ کو جانتے بوجھتے بھی نہ ہم نے اس کی پیش بندی کی اور نہ اب کسی قسم کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس وقت اس ثقافتی یلغار کیلئے سب سے بڑا ذمہ دار ہمارا الیکٹرانک میڈیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ میڈیا نے لوگوں میں سیاسی شعور بیدار کیا، بہت سارے ملکی مسائل کو اجاگر کیا، حکومتوں کی کرپشن منظرِعام پر لایا، سیاستدانوں، جرنیلوں اور علما سب کا اصل چہرہ عوام کو دکھایا۔ اب یہ عوام پر ہے کہ کس کو کس درجے پر رکھتے ہیں۔ لیکن ایک احتساب اب بھی میڈیا کو کرنا ہے جو سب سے مشکل ہے اور وہ ہے خود احتسابی۔ میڈیا نے عوام کو اس تنقید کے علاوہ کیا دیا، قومی تشخص کو اجا گر کرنے میں کیا کردار ادا کیا یہ احتساب بھی اسے کرنا چاہیئے۔
اس بات کا سہارا لینا اور اس کا پرچار کرنا کہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اس لیے تہذیبوں کو ایک دوسرے میں مدغم ہونے سے نہیں روکا جا سکتا ایک بے معنی حجت ہے اور اس کی بنا پر خود کو بری الذمہ قرار دینا کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں۔ ایک بہت سادہ سا سوال یہ ہے کہ کیا اہلِ مغرب نے اہلِ مشرق کا لباس اپنا لیا ہے تو یقیناً اس کا جواب نہیں ہے کہ وہاں ایسا کسی بھی سطح پر نہیں ہوا بلکہ وہاں تو مسلمانوں کو سکارف تک پہننے کی اجازت نہیں دی جارہی بلکہ اس پر سزائیں اور جرمانے عائد کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں فرانس کے سفیر نے اپنے ایک مضمون میں سکارف پر پابندی کی یہ توجیہہ پیش کی کہ وہ معاشرے میں کوئی تفریق و تمیز نہیں پیدا کرنا چاہتے۔ اس سے مغرب کی جمہوریت پسندی کا اندازہ بھی لگا لیجیئے کہ مذہب کی بنیاد پر بھی اختلافِ رائے اسے گوارہ نہیں لیکن ہم نے مغربی جمہوریت کو اتنا مقدس بنا دیا ہے کہ اس کیلئے ہم دین مذہب سے دوری بھی برداشت کرنے کو تیار ہیں۔
Clothing
لباس کسی معاشرے کی پہلی پہچان ہوتی ہے آپ کسی بھی انجانے معاشرے میں جائیں وہاں کے معاشرتی عادات و اطوار کا سب سے پہلا اندازہ وہاں کے لباس سے لگاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد زبان اور دیگر عادات و روایات تک بات پہنچتی ہے۔ لیکن ہماری بد قسمتی کہ ہم نے اپنی اس پہچان پر بہت آسانی سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اگرچہ میں نہیں سمجھتی کہ قومی سطح پر ایسا ممکن ہے یا ہوا ہے لیکن کم از کم ہمار میڈیا اسی کوشش میں مبتلا نظر آتا ہے کہ اس کے ڈراموں سے لیکر کوکنگ کے پروگراموں بلکہ ٹاک شوز تک میں انگریزی لباس کو بڑے فخر سے پہنا جاتا ہے۔ ہمارے کچھ پروگراموں کی اینکرز حکومتی بے اعتدالیوں اور کوتاہیوں کا رونا بڑے زور شور سے یوں ہی اپنی اقدار کا مذاق اڑاتے ہوئے روتی نظر آتی ہیں۔
آج سے پندرہ بیس سال پہلے ٹیلیویڑن میزبانوں کے دوپٹوں پر نظر رکھی جاتی تھی کہ آیا درست ہے یا نہیں۔ اب تو اگر وہ ڈھنگ کے لباس میں ہی نظر آجائے تو شکر ہے ورنہ اگر آپ ان کی شکل سے نا مانوس ہوں تو یقیناً انہیں کسی یورپی ملک کی خاتون سمجھنے میں حق بجانب ہوتے ہیں۔ غیر ملکی ڈرامہ، میوزک چینل یا مووی چینلز بند بھی کر دیجئے تو اپنے چینلز یہ کمی پوری کرتے نظر آتے ہیں اور اگر وہ بھی بند کر دیں تو ہمارے نیوز چینلز ایسے تمام مناظر بڑے دھڑلے سے دکھاتے ہیں۔ برائے نام لباس میں ملبوس پڑوسی ملک کی اداکاراؤں کے سین دکھانے میں ہر چینل دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں مبتلا نظر آتا ہے۔
فیشن شوز جس کے نام پر اپنی ثقافت و روایات حتیٰ کہ مذہب تک سے بغاوت کی جاتی ہے کو بڑے فخر کے ساتھ دکھایا جاتا ہے اور ہر لباس کی تعریف یہ کہہ کر کی جاتی ہے کہ لباس مشرق و مغرب کا حسین امتزاج تھے۔ اب اگر مشرق سے مراد بھارت یا دوسرے غیر مسلم معاشرے ہیں تو پھر تو کسی طرح بات ہضم ہو لیکن چونکہ ہم ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں اس لیے ہم نے لباس کو زیب و زینت سے پہلے پردے کیلئے پہننا ہے جبکہ اکثر یہ شوز خواتین کے لباس کی نمائش کیلئے منعقد کیے جاتے ہیں اور یاد رکھیئے یہ برہنگی اسلام کے سراسر خلاف بلکہ سختی سے منع ہے۔ مرد گلوکاروں، اداکاروں اور ماڈلز کو دیکھیں تو وہ چمکیلے بھڑکیلے لباسوں اور مضحکہ خیز بالوں میں کسی اور سیارے کی مخلوق نظر آتے ہیں۔
Salwar kameez
اب اگر یہ کہا جائے کہ یہ سب شوبز کی دنیا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ باہر کی دنیا اس دنیا سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ آج معاشرے میں دیکھیئے تو عام گھروں میں شلوار قمیض کی جگہ پینٹ شرٹ نے کچھ اس طرح سے لے لی ہے کہ شلوار قمیض پہننے والوں کو کئی بار تضحیک کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے اور باقاعدہ طور پر انہیں شرمندہ کیا جاتا ہے۔ سادگی معاشرے سے ختم ہوتی جا رہی ہے اور ایسا لباس اور رہن سہن دونوں میں ہے۔ ہم میں سے مہنگائی کا رونا ہر ایک روتا ہے لیکن گھر سے باہر کھانا بھی فیشن ہے اور بے ہنگم طرز کے کپڑے پہننا بھی۔ موبائل نے ایک الگ مصیبت برپا کی ہوئی ہے ٹی وی پر اسّی فیصد اشتہارات موبائل فون اور نیٹ ورکس کے ہوتے ہیں۔ جس جس طریقے سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اپنے سِم کی خریداری پر مائل کیا جاتا ہے وہ کسی طرح بھی ایک اسلامی معاشرے کے شایانِ شان نہیں اور پھر ہوتا یہ ہے کہ ہمارے نوجوان موبائل فون کو اسی مقصد کیلئے استعمال کرنے میں لگ جاتے ہیں جسکی تربیت انہیں میڈیا دیتا ہے اور وہ ایسا نہ کریں تو انہیں اپنے ہم عمروں کی طرف سے بیک ورڈ، پینڈو اور نجانے کیا کچھ سننا پڑتا ہے۔
جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ میڈیا کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا پڑے گا اگرچہ یہ کڑوا گھونٹ ہے لیکن اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اگر میڈیا کو واقعی اپنے معاشرے کی فکر ہے اور اس کا بناؤ بھی مقصود ہے تو اسے اپنی مذہبی اور معاشرتی اقدار و روایات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا تاثر ایک مسلمان ملک کے طور پر اْبھارنا ہوگا اور اس پر فخر بھی کرنا ہوگا۔ کیونکہ آج کے دور میں معاشرے کے بگاڑ اور سنوار کی ذمہ داری گھر اور سکول سے بڑھ کر میڈیا پر ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے گھروں میں داخل ہو چکا ہے اور ہمارے ماحول پر مکمل طور پر اثر انداز بھی۔ مہنگائی سے روتے عوام کے سامنے اگر شاندار گاڑیوں، عالی شان گھروں، بے ڈھنگے قیمتی لباسوں اور مہنگے ترین غیر ملکی کھانے۔
جن کے اجزائے ترکیبی صرف امپورٹڈ ڈبوں میں ہی دستیاب ہیں، کی بجائے سادہ زندگی خوبصورت انداز میں پیش کی جائے اور اس کے فوائد اجاگر کیے جائیں، اپنے خوبصورت اور پر وقار لباس کو فخر اور نفاست کے ساتھ پیش کیا جائے تو ہم یقیناً بہت ساری مصیبتوں سے بچ جائیں گے اور پھر جب میڈیا اپنی حکومتوں اور جہازی سائز کابینہ، انکی شاہ خرچیوں اور کرپشن پر اعتراض کرے گا تو چونکہ اس کا اپنا دامن صاف ہوگا تو اس کی بات دلپدیز بھی ہوگی اور پْر اثر بھی۔