بھارت میں ان دنوں الیکشن کی آمد آمد ہے۔ بی جے پی جیسی جماعتیں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے نت نئے حربے اختیار کر رہی ہیں اورمستقبل کے حسین خواب دکھا کر انہیں رام کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں تو دوسری طرف ان کے عسکری ونگ ”بھگوا دہشت گردی” کا جھنڈا تھامے ہوئے پورے بھارت کو ہندو انتہا پسند کی آگ میں جھونک رہے ہیں ۔ریاستی حکومتوں نے بھی دوہرا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے کہا جاتا ہے کہ وہ ہندو انتہا پسندی کو لگام دے رہی ہیں۔ اجودھیا میں وشواہندو پریشد کی جانب سے نکالی جانے والی”سنکلپ دیوس” ریلی کو روکنے کی کوششوں کے دعوے کئے جاتے ہیں تو دوسری جانب وہی اترپریش کی حکومت اس پروپیگنڈے کو ہوا دینے میں ان کا بھرپور انداز میں ساتھ دے رہی ہے اور خفیہ خط لکھ کر ہندو انتہا پسندوں سے وعدے کئے جارہے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور گجرات کے سومناتھ مندر کی طرز پر رام مندر تعمیر کیاجائے گا۔صوبائی ومرکزی حکومتوں ، خفیہ ایجنسیوں اور پولیس میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کے تربیت یافتہ اہلکار موجود ہیں تو الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا بھی انہی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سارا میڈیا احمد آباد گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کے بھیانک چہرے کو چھپا کر اسے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے کیلئے پورا زور لگارہا ہے۔
ہمیں اچھی طرح یا د ہے کہ جب دسمبر 1992ء میں بی جے پی کے سینئر لیڈروں ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، ونے کٹیار اور اوما بھارتی کی سرپرستی میں پانچ سو سالہ پرانی تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا گیاتو اس وقت مسلمانوںنے ایک نظم بنائی تھی جس کا پہلا شعر تھا کہ ” بابر تیری مسجد کو ہم پھر سے بنا دیں گے’ اب ظلم کے طوفان میں اک آگ لگادیں گے”۔ یہ نظم بھارت میں عام ہوئی اورغموں سے چور مسلمان اسے گنگنانے لگے تو ہر طرف بھونچال آگیا۔ ہندوئوں کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے ، کوئی اس نظم کو سننے کیلئے تیار نہیں تھا اور پھر نہ صرف اس نظم پر پابندی لگا دی گئی بلکہ جس مسلمان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کے پاس یہ نظم تحریری طور پر موجود ہے’ یا اسے گنگناتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
Muslims
اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اس نظم کے متعلق کہا گیا کہ یہ اشتعال انگیز نظم ہے اس لئے اس پر فی الفور پابندی ضروری ہے’ لیکن ان دنوں بھارت میں ہند و انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کی اسی نظم کی طرز پر ایک تازہ نظم تیار کی گئی ہے کہ ‘اگر چھوا مندر تو دکھا دیں گے’ ہم تجھ کو تیری اوقات بتا دیں گے” اور ”وندے ماترم گانا ہوگا’ نہیں تو یہاں سے جانا ہو گا”۔ اشتعال انگیزی سے بھرپور یہ نظم ہندوئوں میں زبان زد عام ہے اور دہلی و ممبئی سمیت پورے بھار ت میں گردش کر رہی ہے۔ ہندو انتہا پسند اسے سرعام سپیکروں پر لگاتے اور فسادات پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اورایک بار پھر 1992ء جیسا ہندو انتہا پسندی والا ماحول پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے اس نظم کے خلا ف شدید احتجاج دیکھنے میں آیاہے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔مسلمانوں کی نظم کو اشتعال انگیز کہنے والوں کوبھگوا دہشت گردوں کی جانب سے اس وقت جو اشتعال پھیلایا جارہا ہے وہ کسی کو نظر نہیں آرہا۔ ابھی چند دن پہلے کی ہی بات ہے بھارتی میڈیا نے یہ خبر دی کہ ”شیونری” نامی ممبئی کی ایک بلڈنگ میں ہندو انتہا پسندوںنے مذکورہ نظم کو بجایا اور مسلمانوں کی توہین کرنے کی کوشش کی تو مقامی مسلمانوں کا ایک جتھا ان پر ٹوٹ پڑا، نوجوانوںنے ہندوانتہا پسندوں کی ایل سی ڈی توڑ ڈالی اور شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔ قریب تھاکہ یہاں بہت بڑا فساد پھوٹ پڑتا مگر مسلمانوں کے شدید مشتعل جذبات دیکھ کر انتظامیہ درمیان میں آگئی اور معاملہ کو مشکل سے رفع دفع کر دیا گیا۔
بھارتی مسلمانوں کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر اس نظم پر پابندی نہ لگائی تو انڈیا میں جگہ جگہ فسادات پھیل سکتے ہیں اور ہندو انتہا پسند تنظیمیں اپنے مذموم ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے خون خرابہ سے باز نہیں آئیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارتی ضلع مظفر نگر میں کچھ عرصہ قبل مسلمانوں کی نسل کشی کی جو حالیہ وارداتیں سامنے آئی ہیں’ اس کے پیچھے بھی یہی ہندوئوانہ جذبات اور سازشیں تھیں۔مظفر نگر فسادات کے دوران بیسیوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا، درجنوں خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ پچاس ہزار سے زائد مسلمان بے گھر ہوئے جن میں سے ابھی تک بہت بڑی تعداد میں مسلمان تاحال ریلیف کیمپوں میں گزارا کر رہے ہیں۔کئی بچے سخت سردی میں امدادی کیمپوں میں ٹھٹھر کر جاں بحق ہوتے رہے۔ابھی مظفر نگر میں مسلمانوں پر گرنے والے مصائب و آلام کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا کہ ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے دیگر علاقوں میں بھی ایسی ہی سازشوں کی خبریں تواتر سے موصول ہو رہی ہیں۔صورتحال سے واقفیت رکھنے والے بھارتی دانشور درست کہتے ہیں کہ اگر بھارت سرکار کا یہی دوغلا پن جاری رہا اور مسلمانوں و ہندوئوں کیلئے اس نے الگ الگ پالیسی اختیا رکئے رکھی تو فسادات کا یہ سلسلہ صرف اترپردیش تک ہی محدود نہیں رہے گابلکہ پورے بھار ت میں پھیل جائے گا اور پھر نقصان صرف مسلمانوں کا ہی نہیں ہو گا بلکہ خو د ہندوئوں کو بھی ان فسادات کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔اس وقت بھارتی مسلمانوں میں یہ شعور بیدا ر ہو رہا ہے کہ اگر وہ ہر جگہ خاموشی سے اپنے مسلمان بھائیوں کا قتل عام اور لٹتی ہوئی عصمتوں پر خاموشی اختیا رکئے رکھیں گے تو کل کو کسی اور کے گھر کی طرح ان کا آشیانہ بھی جل کر راکھ ہو سکتا ہے۔اور پھر ان کی مدد کو بھی کوئی نہیں آئے گا۔ مسلمانوں کی نوجوان نسل میں عدم تحفظ کے یہ جذبات شدت سے پیدا ہو رہے ہیںاور وہ مسلمانوںکی عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے متحد و بیدار ہور ہے ہیں۔روایتی پارٹیوں کی طرح ان کا جھکائو اور دلچسپیاں ایسے قائدین اور رہنمائوں کی طرف ہیں جوحریت پسندانہ اور تحریکی جذبات رکھتے ہیں اور جو نوجوان نسل کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوششیں کر رہے۔
Muslims
ہیں کہ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے’ جس طرح جسم کے ایک حصے پر کانٹا چبھے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے اسی طرح بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو کسی ایک مسلمان پر ہونے والے ظلم پر بھی بے چین ہوجانا چاہیے۔ جب ہندو انتہا پسند مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں تو وہ بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث دیکھ کر نہیں بلکہ کلمہ گو ہونے کی بنیاد پر قتل عام کرتے ہیں’ اور جب مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جاتا ہے تو اخبارات میں یہ خبریںشائع نہیں ہوتیں کہ گرفتار کئے گئے اتنے نوجوان بریلوی، دیوبندی یا کسی اور جماعت کے ہیں’ بلکہ یہ کہاجاتا ہے کہ فلاں جگہ سے اتنے مسلمانوں کو دہشت گردی کے کیس میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔بھارتی میڈیا میں آئے دن یہ خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ بھارتی جیلوںمیں مسلمانوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے اور بہت بڑی تعداد میں ایسے پڑھے لکھے نوجوان جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں کہ جنہیں کئی کئی برس گزرنے کے باوجود بھی عدالتوںمیں پیش نہیں کیا گیا اور ان کے مقدمات کی سماعت ہی شروع نہیں ہو سکی ہے۔ایسی صورتحال میں بھارتی مسلمانوں اگر اپنی آزادیوں، عزتوں و حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ وہ باہمی اختلافات ترک کر کے اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کریں اور آج کے حالات میں قرآن و سنت کی تعلیمات سے رہنمائی لیکر اپنے لئے راستہ متعین کریں۔ اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ممکن ہے۔