پاکستان سے تعلق رکھنے والے آرچ بشپ جوزف کوٹس نے کارڈینل کی زمہ داریاں سمبھال لیں۔28 جون 2018 کو ویٹیکن سٹی میں پاپائے اعظم عزت ماآب 266ویں پوپ فرانسس نے آرچ بشپ جوزف کوٹس کوکارڈینل کی زمہ داریاں سونپی۔ 24 سال بعد پاکستان کی تاریخ کے یہ دوسرے کارڈینل ہیں اس سے پہلے کراچی سے تعلق رکھنے والے جوزف کاڈیرو بھی کارڈنیل کے عہدے پر فائز رہے۔ یاد رہے کہ اگر خدا نہ خواسطہ پاپائےاعظم، پوپ دنیا سے گزر جایئں تواسکول آف کالج آف کارڈینلز جن کی تعداد 125 ہے یہ پوپ کو منتخب کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور ووٹ بھی دے سکتے ہیں اور پوپ کے عہدے کے لئے اپنا نام بھی پیش کر سکتے ہیں اس کے مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں اگر پوپ گُزر جائے تو آئندہ آنے والا پوپ پاکستان سے بھی ہو سکتا ہے۔کارڈینل کوُٹس 21 جولائ 1945 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنی مزہبی تعلیم کرائسٹ دی کینگ سیمنری کراچی سے مکمل کی 1971 میں وہ پریسٹ (فادر) کے لئے مخصوص ہوئے۔
انہوں نے فلاسفی اور سوشیالوجی کی اعلی تعلیم اٹلی کے شہر روم سے حاصل کی اور1976 میں واپس پاکستان آئے اور پروفیسر کی حثیت سے کراچی اور لاہور کی سینمریز میں خدمات انجام دیں۔ 1988 میں اس وقت کے پوپ جان پال دوئم نے ان کو حیدرآباد کے لئے بشپ منتخب کیا۔ حیدرآباد میں بہت کام کیا گئے جس کے بعد محترم کوٹُس صاحب کوفیصل آباد کے بشپ کی زمہ داریاں سونپی گئ جن کو وہ 1998 تک نبھاتے رہے۔ کارڈینل جوزف کوُٹس صاحب اسی دوران بین الاقوامی سماجی تنظیم کاریتاس کے پاکستان کے بھی چئیرمین رہے۔ اور اس حوالے سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔2012 میں پوپ بینیڈیکٹ نے انہیں کراچی کے لئے آرچ بشپ منتخب کیا۔ کراچی میں اور فیصل آباد میں انہوں نے دیگرمزاہب کے درمیان مکالمے پر زور دیا اورمسلمان علماء کرام اور مسیحی علماء کے درمیان کئ میٹینگزکا انقاد کیا جس سے دونوں مزاہب کے لوگوں کے درمیان کے فاصلے کچھ کم ہوئے۔
اسی طرح محترم جوزف کوُٹس نے پاکستان میں مسیحیوں کے خلاف امتیازی سلوک پر بھی ہر فورم پر اپنی آواز اٹھائ۔ حال ہی میں جب ان کو کارڈینل کے لئے ویٹیکن میں مخصوص کیا گیا تو ایک بات نے وہاں موجود دنیا جہان سے آئے ہوئے مسیحیوں کو حیران کیا وہ تھی پاکستانی پرچموں کی بھرمار۔ پاکستان سے تقریبا 120 مسیحی اس تقریب کے لئے خصوصی طور پر ویٹیکن پہنچے تھے اور ان میں فادر صالح ڈائگو، نئے منتخب سینٹر انور لعل دین سمیت مختلف مقاطب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ یورپ سے بھی پاکستانی مسیحیوں کی بڑی تعداد ویٹیکن میں موجود تھی۔ ہالینڈ سے بی ٹی ایل کے چئیرمین گیسپر ڈانئیل، جمشید ملک اور مسٹر اینڈ مسسز یونس ویلئم ہالینڈ کی نمایندگی کر رہے تھے۔ کراچی سے ارشد گل جو کہ ویٹیکن سے میرے ساتھ رابطے میں تھے سارے پروگرام سے ہمیں آگاہ کر رہے تھے۔بلکہ ان ہی کی بدولت میری سینٹر انور لعل دین سے فون پر بات بھی ہوئ۔سب پُرجوش تھے اس کا اندازہ مجھے ایک ویڈیو سے بھی ہوا جب تمام کارڈینلز منتخب ہونے کے لئے ہال میں تشریف لائے تو بشپ جوزف کوُٹس پاکستانی جھنڈوں کی بھرمار دیکھ کر مسکرا اٹھے۔
گیسپر ڈانئیل نے وہاں ہونے والے ایک واقعہ کے بارے میں مجھے بتایا کہ وہ سب پاکستانی اپنے جھنڈے اٹھائے تھے تو ان سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ سب پاکستانی بہت پُرجوش نظر آرہے ہیں تو ان کو بتایا کہ کہ نئے منتخب ہونے والے کارڈنیل بشپ جوزف کوٹس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ بعد میں اس شخص نے بتایا کہ وہ سویڈن کے سفیر ہیں۔ پاکستانی مسیحوں کا جوش اور جزبہ یہاں ختم نہی ہوا بلکہ اس تقریب کے اختتام کے بعد نومنتخب کارڈینل بشپ جوزف کُوٹس جب پاکستان واپس پہنچے تو کراچی ائرپورٹ پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے بھی ان کو خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔ کراچی ائیرپورٹ پر مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ پاکستانی کرسچن کمیونٹی امید کرتی ہے کہ کارڈینل بشپ جوزف کُوٹس قوم کی خدمت اسی طرح کرتے رہے گے جیسے کہ پہلے کرتے تھے۔ ان کو یہ عہدہ ملا ہے جس کے لئے ان کودنیا بھر سے ہزاروں بشپس میں سے چُنا گیا ہے۔ ان کے ساتھ ایک قابل ٹیم بھی موجود ہے جس میں فادر صالح ڈائگو اور بہت سے فادرز شامل ہیں۔
فادر صالح ڈائگو کئ بار یورپ تشریف لا چکے ہیں اور ہالینڈ میں بھی آتے ہیں۔ میری ان سے زاتی ملاقات بھی رہی ہے یہ سب قوم کے اتحاد اور یکجہتی کی بات کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یورپ میں موجود ہمارے چند مزہبی لیڈرز قوم کو انتشار میں رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔اور کسی بھی ایسے موقع پر جب پاکستانی مسیحی کمیونٹی اپنے بہن بھائیوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہے تو یہ مزہبی لیڈرز نظریں چرا کر نکل جاتے ہیں۔ آن لائن پٹیشنز پر ایک دستخط نہی کرتے مگر منافقت کرتے ہوئے اتحاد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ان کے اتحاد کا فسلفہ شر کا فلسفہ ہے۔ اس لئے قوم کو حقیقی مزہبی نمایندوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ۔ نئے منتخب ہونے والے کارڈینل بشپ جوزف کوُٹس اور دیگر مسیحی فرقوں کے مزہبی راہنما قوم کی بقا کے لئے موجود رہتے ہیں اور اپنا فرض بغیر کسی زاتی فائدے کے ادا کرتے ہیں۔