تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں پی پی 232 وہاڑی سے آزاد حیثیت سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے چوہدری یوسف کسیلیہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہوگئے انہوں نے 50260ووٹ حاصل کئے تھے اور بعد ازاں انہیں چیئرمین ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نامزد کیا گیا ان کے مد مقابل مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے حصہ لینے والے پیر غلام محی الدین چشتی 43665ووٹ لے کر شکست کھا گئے تھے جٹ گروپ کے نامزد امیدوار صوبائی اسمبلی چوہدری طاہر نقاش7150ووٹ لے کر تیسرے نمبر پہ آئے پی ٹی آئی کے رانا محمد مظفر نے 2284جماعت اسلامی کے غلام رشید احمد نے 1035جبکہ کسان اتحاد کے محمود احمد اختر نے 927ووٹ حاصل کئے تھے۔صوبائی حلقہ پی پی232 سے آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے چودھری محمد یوسف کسیلیہ کے خلاف اْنکے مدمقابل مسلم لیگ (ن)کے سابق ٹکٹ ہولڈر شکست خوردہ پیر غلام محی الدین چشتی نے یوسف کسیلیہ کی کامیابی کے خلاف الیکشن ٹربیونل ملتان میں انتخابی عذر داری دائر کی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ یوسف کسیلیہ نے انتخابی مہم میں دس لاکھ روپے سے زائد خرچ کئے اور وہ بنک نادہندہ بھی ہیں جس پر الیکشن ٹربیونل ملتان نے پیر غلام محی الدین چشتی کی انتخابی عذرداری کو منظور کرتے ہوئے یوسف کسیلیہ کی کامیابی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 90روز میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا تھا بعدازاں سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونل ملتان کے فیصلے کو برقراررکھتے ہوئے دوبارہ الیکشن کا حکم دے دیا۔
الیکشن شیڈول کا اعلان ہوتے ہی مقامی سیاست دانوںنے نئی صف بندیاں شروع کر دیں سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمد جٹ نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اپنی صاحبزادی محترمہ عائشہ نذیر جٹ کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ بھی دلوا دیا حالانکہ اس حلقہ سے پی ٹی آئی کے کئی رہنما ٹکٹ کے حصول کے لئے سرگرداں تھے واضح رہے محترمہ عائشہ نذیر جٹ نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں این اے 167 سے الیکشن لڑا تھا اور انہوں نے 44ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے تھی اور35ہزار سے زائد ووٹ انہیں 232پی پی سے ملے تھے اہم اور مضبوط دھڑے کی شمولیت سے پی ٹی آئی کے مردہ گھوڑے میں نئی جان پڑ گئی کیونکہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو پی پی 332سے صرف2284 ووٹ ملے تھے ادھر مسلم لیگ کے ناکام امیدوار پیر غلام محی الدین چشتی بھی حکمران جماعت کے ٹکٹ کے حصول کے لئے سر گرم ہو گئے اور حلقہ میں الیکشن مہم کا بھی آغاز کر دیا۔
کیونکہ انہوں نے آزاد حیثیت سے جیتنے والے امیدوار کو نااہل کرانے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا تھا دوسری جانب آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری یوسف کسیلیہ بھی الیکشن لڑنے کا مصم ادارہ رکھتے تھے اور پھر انہیں ضلع وہاڑی کی سیاست کے ” کنگ میکر” سابق ضلع ناظم اور سینئرمسلم لیگی رہنماء سید شاہد مہدی نسیم شاہ کی بھر پور حمایت حاصل تھی ڈسٹرکٹ وہاڑی کے ” سیاسی کنگ میکر ” کی مسلمہ سیاسی حیثیت ،عمدہ حکمت عملی کا اعتراف نہ کرنا ان سے زیادتی کے زمرہ میں شامل ہوگا موصوف تاش کے پتوں کو بر وقت شو کرنا جانتے ہیں اورانہیں شطرنج کی ہاری ہوئی بازی کو پلٹنے کا فن بھی خوب آتاہے اب دیکھیں ناںکہ شہر کی چیئر مین شپ کے حکمران جماعت کے نامزد امیدوار کے مد مقابل اپنا امیداوار لا کر حکمران امیدوار کے لئے مشکلات پیدا کر دیں ہیں اور اس بات کے قوی امکان پیدا ہوچکے ہیں کہ ” کنگ میکر ” کی جس امیدوار کو ”حمایت ”حاصل ہوگی وہی ” امیر شہر” منتخب ہوگا۔
Punjab Assembly
حکمران جماعت نے باہمی مشاورت سے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی232کے ضمنی الیکشن کے سلسلہ میں سابق ایم پی اے چوہدری محمد یوسف کسیلیہ کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا ہے جبکہ ٹکٹ کے حصول کے لیے کوشش کر نے والے دوسرے مسلم لیگی امیدوار سابق صوبائی وزیر پیر غلام محی الدین چشتی کو ضلع کونسل وہاڑی کی چیئر مین شپ کے لیے نامزدگی کی یقین دھانی کروا دی گئی ہے اب یہ ایک الگ بات ہے ”پیر سائیں ” کو ضلع کونسل میں ذمہ داری سونپی جاتی ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا واضح رہے کہ چوہدری محمد یوسف کسیلیہ کو ٹکٹ جاری کروانے کے سلسلہ میں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری سید ساجد مہدی سلیم شاہ اور انکے بڑے بھائی سابق ضلع ناظم اور سینئرمسلم لیگی رہنماء سید شاہد مہدی نسیم شاہ نے اہم رول ادا کیا الیکشن مہم تیز ہوتے ہی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہوا مفادات کی سیاست کرنے والوں نے نئی پناہ گاہیں ڈھونڈیں ”جٹ گروپ ”یہ نشست جیتنے کے لئے متحرک ہوچکا ہے پی ٹی آئی کی بجائے ”جٹ گروپ” کے الفاظ اس لئے کہے گئے ہیں۔
یہاں پی ٹی آئی کم کم دکھائی دیتی ہے جب کہ جٹ گروپ کو سیاسی اہمیت حاصل ہے اور حلقہ کے کئی مضبوط سیاسی دھڑے جٹ گروپ کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ کسان اتحاد بھی خم ٹھونک کر جٹ گروپ کی جیت کے لئے سرگرم ہے پی پی پی کاخاموش ووٹر ز بھی جٹ گروپ کے پلڑے میں اپنا ووٹ ڈال کر فیصلہ کن کردارادا کر سکتا ہے حالانکہ یہاں سے پی پی کے محبوب گیلانی بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں لیکن ان کی الیکشن مہم کہیں دکھائی نہیں دی پی پی پی سے یاد آیا کبھی اس جماعت کا بھی طوطی بولتا تھا اوراس پارٹی کے امیدواروں کو حکمران جماعت کے مد مقابل میدان سجانا خوب آتا تھا اور ۔۔۔۔ اب ۔۔۔ یہ پارٹی قصہ پارینہ بن گئی ہے حالانکہ پی پی پی کا ووٹر اب بھی موجود ہے لیکن اس نظریاتی ووٹر کو کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا پی پی کی قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہے انہیں پنجاب کے لئے مخلص اور نظریاتی قیادت کو آگے لانا ہوگا ورنہ ان کا۔۔اللہ ہی حافظ ہے۔
الیکشن مہم کے سلسلہ میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین بھی اس حلقے کا وزٹ کر چکے ہیں اور ہائی کمان بھی حلقہ میں جلسہ عام کرکے حکمران جماعت کو ٹف ٹائم دینے کا ارادہ رکھتی ہے دوسری جانب ممبر قومی اسمبلی بورے والا چوہدری نذیر احمد آرائیں اورممبر صوبائی اسمبلی چوہدری ارشاد احمد آرائیں نے بھی یوسف کسیلیہ کی حمایت کر دی ہے سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ”آرائیں گروپ” کواس بات کا خدشہ لاحق ہے کہ اگر یہاں سے ”جٹ گروپ ” کامیاب ہوا تو پھر آنے والے الیکشن میں ان کی سیاسی موت واقع ہوجائے گی۔
PML N
یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے مختلف دھڑے حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری یوسف کسیلیہ کی حمایت میں متحد ہو چکے ہیں ”پیر ،وزیر،مشیر،نذیر”ان کے نظریات الگ الگ مفادات سانجھے اس لئے سب اکٹھے ہو چکے اور تو اور کسیلیہ کو ڈی سیٹ کروانے والے غلام محی الدین چشتی بھی ن لیگ کے امیدوار کے ساتھ ساتھ دکھائی دیتے ہیں 20اگست کو الیکشن مہم کے سلسلہ میں رکن قومی اسمبلی حمزہ شہبازنے بورے والہ میں پی پی 232سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار صوبائی اسمبلی یوسف کسیلہ کی رہائش پر ان کے والد کی وفات پر اظہار تعزیت کیا۔بعدازاںانہوں نے شہر کی 16یونین کونسلوں کے چیئرمین ، وائس چیئرمین اور فعال پارٹی کارکنان سے ملاقاتیں کیں او پی پی 232کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
جہاں مسلم لیگی دھڑے متحد ہوئے وہاں مسلم لیگ میں ایک ”باغی گروپ ” بھی سامنے آیا اس گروپ نے ن لیگ کے امیدوار کی بھر پور مخالفت کا عندیہ دیا ہے ۔جہاں مسلم لیگ میں بغاوت ہوئی وہاں پی ٹی آئی کو بھی جھٹکا لگاچند ماہ قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والے ”ساجد” پھر سے ”شریف ” بن کر حلقہ بہ مسلم لیگ ہو چکے ہیں اور انہیں اب پتا چلا ہے کہ” میاں صاحب تیرے کام بولتے ہیں ”ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن،پی ٹی آئی ،پی پی پی سمیت کئی آزاد امیدوار سیاسی طبع آزمائی کر رہے ہیں۔
ایک آزاد امیدوارنذیر احمداپنی جیت کے لئے پیدل ہی الیکشن مہم جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اصل مقابلہ حکمران جماعت اور ”جٹ گروپ ” کے درمیان متوقع ہے پی پی 232میں31اگست کو ہونے والے الیکشن میں1لاکھ91ہزار92 ووٹرز نے حق رائے دہی سے اپنی اپنی پسند کے امیدوار کو منتخب کرنا ہے اقتدار کے سنگھاسن پہ کون بیٹھتا ہے شکست کس کا مقدر بنتی ہے یہ31اگست کی شام کو واضح ہو جائے گا۔