کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) کراچی میں عیدالاضحیٰ سے قبل ایک کار واش سروس کے مالک نے گاڑیاں دھونے کے بجائے چوپائے دھونے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
پاکستان میں عیدالاضحیٰ کا آغاز ہفتہ یکم اگست سے ہو رہا ہے۔ مسلمان سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے اسلامی مہینے ذی الحج کی 10 سے 12 تاریخوں کے درمیان جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ کراچی میں لوگ اپنے قربانی کے جانوروں کو صاف ستھرا کرانے کے لیے انہیں ایک گاڑیاں دھونے کے ایک مرکز پر لا رہے ہیں جس کے مالک شیخ صغیر ہیں اور انہوں نے ان دنوں گاڑیاں دھونے کی بجائے قربانی کے جانور دھونے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
42 سالہ شیخ صغیر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سلسلے کا آغاز دراصل چند برس قبل ہوا تھا جب وہ قربانی کے لیے خریدی گئی اپنی گائے کو صاف ستھرا کرنے کے لیے اپنے کار واش پر دھو رہے تھے: ”جن لوگوں نے مجھے گائے کو نہلاتے ہوئے دیکھا تو وہ اپنے جانور بھی لے کر آ گئے… اور اس طرح اس سلسلے کا آغاز ہوا۔‘‘
جانور کو نہلانے کے لیے صابن وغیرہ کے علاوہ تیز دھار پانی کا استعمال کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس کے جسم کو خشک بھی کیا جاتا ہے۔
اس کار واش پر زیادہ تر جانور کراچی کے مضافات میں لگائے جانے والی مویشی منڈی سے لائے جاتے ہیں۔ اسے ملک کی سب سے بڑی مویشی منڈی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ منڈی گائے، بھیڑ، بکریوں اور اونٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ پاکستان کے دور دراز کے علاقوں سے لائے جانے اور پھر منڈی کے گرد و غبار کی وجہ سے یہ جانور اکثر دھول مٹی اور گوبر وغیرہ سے اٹے ہوتے ہیں۔ صغیر ایک جانور کو نہلانے کے ایک سو روپے لیتے ہیں جس کے لیے صابن وغیرہ کے علاوہ تیز دھار پانی کا استعمال کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس کے جسم کو خشک بھی کیا جاتا ہے۔ بھیڑ، بکری ہو، گائے، بھینس یا پھر اونٹ، ایک جانور کو نہلانے کے پیسے یکساں ہی وصول کیے جاتے ہیں اور وہ ہیں ایک سو روپے۔
بھیڑ، بکری ہو، گائے، بھینس یا پھر اونٹ، ایک جانور کو نہلانے کے پیسے یکساں ہی وصول کیے جاتے ہیں اور وہ ہیں ایک سو روپے۔
ایک توانا بھورے رنگ کی گائے کو دھلوانے کے لیے کار واش پر آئے ہوئے محمد عزیر کے مطابق، ”جانور کو نہلوانے کے 100 روپے کوئی بڑی رقم نہیں۔‘‘
پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں ہر سال قریب آٹھ سے 10 ملین جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔ شیخ صغیر کہتے ہیں قربانی سے قبل جانور کو صاف نہلانا دھلانا اور صاف ستھرا کرنا کورونا کی وباء کے تناظر میں اور بھی زیادہ اہم ہے: ”میں اس کے لیے جانوروں کو جراثیم کش مواد سے ڈس انفیکٹ بھی کرتا ہوں۔‘‘