انتقام بربادی کا ذریعہ

Allah

Allah

ہمیشہ وہی افراد تاریخ کے جھروکوں میں زندہ رہتے ہیں جو اپنا آج کل کے لیے محفوظ بنا لیتے ہیں کیونکہ وقت گذرتے وقت نہیں لگتااور اکثر ہم پرانی یادوں کو جب یاد کرتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہم سکول جاتے تھے اور پھر وہ سکول کا زمانہ ہماری آنکھوں میں ایک فلم طرح گذر جاتا ہے کالج کے زمانہ کو یاد کرتے ہیں تو پھر کچھ اور ہی طرح کی یادیں دل ودماغ کو روشن کر کے گذر جاتی ہے اور جب یونیورسٹی کا سنہرا زمانہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو پورے جسم میں ایک عجیب سے سرشاری اور خمار سا چھا جاتا ہے جس کے سحر سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے مگر یادوں کی یہ حسین گھڑی بھی آخر کار گذر ہی جاتی ہے اور ہم پھر سے اپنی موجودہ دنیا میں لوٹ آتے ہیں۔

اس دنیا میں بے شمار لوگ آئے اپنی زندگی گذاری اور پھر مٹی میں مل گئے مگر جنہوں نے انسانیت کی خدمت کی اپنی زندگی کو ایک مقصد کے تحت گذارا وہ تاریخ کے اوراق میں آج بھی زندہ ہیں ہم میں سے اکثر لوگ حالات کاگلہ شکوہ کرتے ہی نظر آتے ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود سے بھی بے زار ہی رہتے ہیں انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ اگر کرنا چاہے تو بہت کچھ کرسکتا ہے نیک نیتی اور جدوجہد سے معاشرہ میں ایک اچھا مقام حاصل کرسکتا ہے مگر اس کے لیے سب سے پہلی شرط ایمانداری ہے اور یہی راستہ کامیابی کا ہے جو ہمیں اپنی منزل تک پہنچا سکا ہے اللہ تعالی نے ہر انسان کو بااختیار پیدا کیا ہے بے شمار نعمتیں ہمارے لیے ہیں اور اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہم معاشرہ میں اپنا مقام نہ بنا سکیں تو پھر ہمیں تنہائی میں بیٹھ کر اپنا احتساب کرکے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم میں کیا کمی ہے کیوں زندگی کی دوڑ میں ہم پیچھے کو بھاگ رہے ہیں اور جو ہم سے آگے نکل گئے ان میں کیا خوبیاں ہیں۔

Humans

Humans

ایک بات جو ہم سب کو زہن نشین کرلینی چاہیے کہ حالات بھی انسان کا ساتھ اس قت دیتے ہیں جب خود ہمارے اندر آگے بڑھنے کی سچی لگن ہوگی اور ایمانداری ہمارے اندر ہو ہم کسی کی ٹانگ کھینچ کر اوپر چھڑنے کی کوشش نہ کریں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص رہیں صرف دکھاوے کے لیے بلکہ اپنے اندر کی پاکیزگی کو قائم رکھنے کے لیے ہم اپنے اندر برداشت کو جنم دیں انتقام انسان کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے اسکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین کر اسے ناکارہ کردیتا ہے اور جو انسان اپنے اندر دوسروں کو پروان چڑھانے کا جذبہ رکھتا ہواور زندگی کی دوڑ میں کامیابی کی جستجو رکھتا ہوتو پھر حالات خود بخود اسکے حق میں ہونا شروع ہوجاتے ہیں پھر اسکے راستے کا تعین قدرت خود کرتی ہے اور جس معاشرہ میں ایسے افراد موجود ہوں پھر ووہ شہر مثالی بن جاتا ہے اور وہ ملک قابل مثال بن جاتا ہے اور ایسے لوگ دنیا میں جہاں بھی چلے جائیں وہاں وہ سرکے تاج سمجھے جاتے ہیں اور وہی لوگ کتابوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاتے ہیں مگر اس کے لیے پہلی شرط ایمانداری ہے مگر ہم نے اسی چیز سے پیچھا چھڑوا لیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم حالات کا رونا رو کر اپنی بربادی خود پیدا کررہے ہیں اور آجتک چور بازاری اور لوٹ مار سے کوئی انسان خوش نہیں رہا اگر وہ کسی کے ساتھ فراڈ کررہا ہے تو وہ اپنے ساتھ ہی فراڈ کر رہا ہے اس لیے انسان کو اپنے آپ سے مخلص رہتے ہوئے دوسروں کے ساتھ بھی وہی رویہ رکھنا چاہیے تب کامیابیاں اسکی راہ میں ہاتھ باند ھے کھڑی ہوتی ہیں۔

انسان کی زندگی بہت مختصر ہے اور پھر کسی کو اپنی موت کا بھی معلوم نہیں کہ کب اور کہاں اسکا مقدر بن جائے گی اور اسکے باوجود ہم نے منصوبہ بندی ایسے کی ہوتی ہے جیسے ہم نے اس دنیا سے جانا ہی نہیں ہے اور اسی لیے جب موت آتی ہے تو بہت سے کام ادھورے ہی رہ جاتے ہیں جو پھر کبھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے اس لیے ہم اپنے ہر دن کو غنیمت اور آخری جانیں اپنی سابقہ زندگی پر ایک نظر دوڑائیں اپنی خامیاں اور کوتاہیاں اپنے سامنے لائیں اورانکو اپنی بری حرکتوں سمیت ایک گڑھا کھود کر اس میں دبا دیں۔

اپنے اردگرد لوگوں پر نظر دوڑائیں کامیاب اور مثالی زندگی گذارنے والوں کی خوبیاں نوٹ کریں اور پھر انہیں اپنے اندر سمیٹ لیں اپنے راستے کا تعین کریں اور پھر ایک بار پوری ایمانداری کے ساتھ اس پر چل پڑیں آپ کو ایسے محسوس ہوگا کہ جیسے مشکلات کا یک پہاڑ آپ کے سامنے کھڑا ہے مگر ہمت اور حوصلے سے آپ اس پہاڑ کو عبور کرنا شروع کردیں۔

اسکے بعد پھر کامیابیاں آپ کے ساتھ ساتھ چلنا شروع ہو جائیں گی آپ ثابت قدم رہے تو پر آپ کے ساتھ چلنے والی وہی کامیابیاں آپ کے قدم چوم لیں گی اسکے بعد آپ ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے مرنے کے بعد بھی آپ کی تاریخ کے جھرکوں سے باہر جھانکتے رہیں گے اور لوگ آپ کی کامیابی کے قصے سنایا کریں گے مگر شرط صرف ایمانداری ہے کیونکہ یہی کامیابی کا راز ہے۔

Mohammad Siddique Madani

Mohammad Siddique Madani

تحریر۔ محمد صدیق مدنی۔چمن