نسخہ آب حیات

Inflation

Inflation

تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
قارئین کافی عرصہ سے عوام خاص کر بجٹ میں ایک ہی گفتگو کرتے نظر آتے ہیں کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے حکومت اسے روکنے میں ناکام ہو چکی ہے یہ گفتگو ہر دور حکومت میں سننے کو ملتی ہے موجودہ حکومت نے جب اقتدار سمبھالا تو وزیر اعظم پاکستان نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جب اقتددار چھوڑ کر گئے تھے اور اشیاء کی قیمتیں تھیں انہین واپس لائیں گے انہوں نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو نہ صرف کم کیا بلکہ لوگوں کے تصور سے بھی زیادہ کم کیا مگر اس کے ثمرات عوام کو نہ مل سکے جب بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا اشیاء خوردو نوش کی قیمتواں میں بھی اضافہ ہو جاتا کرائے بڑھتے تھے تو نائی سے لے کر ڈاکٹر تک اپنے ریٹ بڑھائے سابقہ دور میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کت بعد بجٹ میں سرکاری ملازمین اعر پینشنروں کی پینشن میں اضافہ کر کے انہیں ریلیف تو دیا جاتا مگر باقی لوگوں کو مہنگائی منافع میں ملتی حکمرانوں نے عوام سے کئے وعدے تو پورے کئے مگر ایک چیز کو بھول گئے

انہیں 1999ء والی جگہ پر ہر چیز کو لانا چاہیے تھا ملاز میں جو تنخواہ اس وقت لے رہے تھے کرائے جو اس وقت تھے انہیں بحال کرنا چایہے تھا مہنگائی کے خاتمے کے سد باب پونے چاہیں تھے مگر ایسا نہیں ہو دودھ کی قیمتیں اس لئے بڑھائی گئی تھیں کہ کھل بنولہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا تھا پھر ان کی قیمتیں واپس ہو گئیں تو گوالوں نے دودھ کی قیمتیں کم کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی بلکہ ان میں مذید اضافہ ہی کیا دودھ کی قیمتیں بڑھی تو ہو ٹل مالکان نے چائے کی قیمتوں میں اضافہ کیا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ نائی نے شیو 10روپے سے بڑھا کر20روپے اور50روپے کر دی ان سے کسی نے پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ ان کے استرے پیٹرول سے چلتے ہیں ڈاکٹر صاحبان نے اپنی فیسوں میں اخافہ کیا کیا

Pensions

Pensions

وہ بھی پیٹرول سے چلتے تھے یہ تو ایک جواز تھا جسے بنا کر ہم لوگ مہنگائی میں اضافہ کرتے آئے ہیں اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے مسائل کیسے ختم ہوں اس کے لئے ہمیں یکجہتی کی ضرورت ہے جس کے لئے حکومت کو اور عوام کو بھی تعاون کرنا ہوگا وزیر خزانہ اسحاق ڈار اب یہ سوچیں کہ ہر سال ملازمین کی بڑھوتی خیم کریں پینشنوں میں اضافے کو بڑھانے کے بجائے کم کریں اور پھر اسی شرح سے مہنگائی کے خاتمے پر توجع دیں تنخواہیں کم کرنے سے ملک کو ہر سال ٹھیک ٹھاک پیسہ بچے گا جس سے ملک ترقی کرئے گا اور عوام بھی خوشحال ہونگے عوام خوشحال ہونگے تو ملک سے دہشت گردی اور دیگر جرائم ختم ہونگے سابقہ دور میں ملازمیں اور پینشنروں کو تو ریلیف مل جاتا اور ملک میں بسنے والے دیگر عوام کے حصے میں صرف مہنگائی آتی اب اس رجحان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اب یہ حال ہے کہ وزیر مشربے پناہ مراعات لے رہے ہیں ان کی مرعات کو بھی ختم کیا جائے ملک میں چیک سسٹم شروع کیا جائے

میں ایک تازہ خبر جسے سن کر افسوس ہو گا کہ کلر کہار میں ہوٹل مالکان نے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے چائے کا کپ 30روپے اور کھانے کے ریٹ بھی بڑھا کر کلر کہار انتظامیہ کے منہ پر جو تماچا مارا ہے ان کے دیکھا دیکھی میانی اڈا پر بھی چائے کی قیمتوں میں بلا جواز اضافہ کر دیا گیا ہے اب کیا حکمران منافع خوروں کو چھٹی دیں گے یا پھر عوام کی بھی سنیں گے مجھے امید ہے کہ حکمران اب سوچیں گے ضرور کیونکہ اب مسائل کا حل صرف اسی بات میں ہے کہ ملازمین کو بھی کڑوا گھونٹ بھرنا ہو گا اس کے بعد جب ملک خوشحالی کی راہوں پر گامزن ہو گا تو انہیں یہ نسخہ سمجھ آ جائے گا اس سے قبل جب ایک گھرانے کا سربراہ 60روپے ماہابہ تنخواہ لیتا تھا اس کا گزارہ شاہانہ ہو تا تھا اب جبکہ ایک گھرانے کا سربراہ لاکھ روپے کے قریب تنخواہ لیتا ہے اور ہر بجٹ میں مذید اضافے کی خواہش بھی رکھتا ہے ان کے حالات کیسے ہیں اندازہ اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے ان کا گزارا تو ہوتا ہی ہے باقی جو لوگ مزدوری کرتے ہیں ان کے حالات کیسے ہونگے سوچیں

Riaz Malik

Riaz Malik

تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
03348732994 malikriaz57@gmail.com