گذشتہ دنوں مجھے چونیاں کارڈیالوجی جانے کا اتفاق ہوا ۔میں بطور مریض گئی تھی کیونکہ وہ مجھے پنجاب کارڈیالوجی کی نسبت قریب پڑتا تھا ۔مگر ہوا یہ کہ دل کا درد کم کرنے گئی اور اسے دگنا کر کے لے آئی میں کوئی رپورٹر تو تھی نہیں کہ باقائدہ خبر بناتی بس جو دیکھا اور محسوس کیا دل نے کہا لکھ دوں شائد کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات کیونکہ میں خود کو ایمان کے اس درجے پر پاتی ہوں جہان صرف برائی کو دیکھ کر دل میں ہی برا جان سکتی ہوں نہ میری اتنی پہنچ کہ اسے دور کر سکوں اور جو استطاعت رکھتے ہیں وہ اسے جان بوجھ کے دور نہیں کرنا چاہتے یہاں مجھے صحافت کے علم برداروں سے بھی شکایت ہے کہوہ دن رات سیاست دانوں کی تعریفوں میں زمیں آسمان کے قلابے ملاتے رھتے ہیں۔
اگر وہ کسی جلسے میں نماز ادا کر لیں جو کہ سراسر دکھاوا ہوتا ہے تو اسے بھی میڈیا اس طرح کوریج دیتا ہے گویا وہ بندہ جنت سے ہو آیا ہے جب کہ آنکھوں دیکھے مسائل سے چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے بات کہاں سے کہاں نکل گئی ذکر ِخیر تھا کا رڈ یالوجی کا سب مانتے ہیں کہ دل پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے اور اس لحاظ سے اس کی علاج گاہ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے ،مگر ہاسپٹل جا کر جو مجھے پہلا جھٹکالگا وہ اسپتال کا عملہ تھا پہلے وہ عملہ خاکروب کا کام انجام دیتا پھرپرچی پکڑ کر مریضوں کا بلڈ پریشر چیک کرتا ہے جب تک مریضوں کی ای۔سی۔جی۔ ہوتی ہے وہ فٹا فٹ فرش صاف کر لیتا ہے۔
واللہ عالم باالصواب کہ اتنی کوالٹی کا عملہ جو بیک وقت اتنی خصوصیات رکھتا ہو اندازہ کریں کتنی ڈگریوں کا حامل ہو گا ۔اس کے بعد ایک e.c.g مشین ہے ۔ایک فیمیل سٹاف بچاری گھن چکر بنی نظر آئی جس کا ایک پائوں او ۔پی۔ڈی، میں اور ایک وارڈ میں ۔پرچی والے عملے کا یہ عالم تھا کہ ان کے موبائل پہ اس طرح فون آرہے تھے گویا اصلی کارڈیالوجسٹ وہی ہیں اور پھر پرچی نمبر 38 پرچی نمبر 4کی جگہ لے لیتی اور 4نمبر والا مریض وہیں کا وہیں رہتا ۔میں نے اپنے ایک جاننے والے صحافی بھائی سے گذارش کی کہ وہ اپنے کسی رپورٹر کو بھیجیں تا کہ مریضوں کی حالت کو ہائی لائٹ کریں مگر مقامِ افسوس کہ سچائی کے علمبرداروں اور دعویداروں کا جواب تھا سب جگہ یہی ہورہا ہے ۔
Eye Doctor sahib
یہ دوسرا جھٹکا تھا جو مجھے لگا کہ ہم کتنے دوغلے لوگ ہیں ۔ پھر کیوں توقع رکھتے ہیں کہ تبدیلی آئے گی ۔اب تو مجھے یقین ہو چلا کہ کوئی تبدیلی نہیں آسکتی کیونکہ جب معاشرے میں اتنی بے حسی بڑھ جائے تو سچائی کی کوئی قیمت نہیں رہتی۔بحر طور خدا خدا کر کے میری باری آئی ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچی تو ایک مشفق انسان کو دیکھ کہ ڈھارس بندھی ۔اپنا نسخہ لینے کے بعد سب ان کے گوش گذار کیا اور پوچھا کہ یہ سب کیا ہے ؟کیونکہ دل کے مریضوں کے ندخے اور علاج کا دارومدار بی۔پی کی ریڈنگ پر ہوتا ہے تو کیوں نا تجربے کار اور ان کوالیفائیڈ عملہ اس کو انجام دے رہا ہے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ سب سفارشی بھرتی ہے ہم نے ان کی ٹریننگ تو کی ہے۔مگر میرا سوال تھا کہ ایک ان پڑھ کیسے سمجھ سکتا ہے۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ یہاں دو ڈاکٹر ز ہیں اور میں بیک وقت ۔او۔پی۔ڈی ۔بھی ڈیل کر رہا ہوں اور وارڈ بھی ساتھ ایمرجنسی بھی ناکافی عملہ اور سہولیات کے ساتھ میں جس طرح سے چلا رہا ہوں بس مت پوچھیں اور واقعی اس میں کوئی شک نہ تھا اس پہ مسہتزاز کہ ان کا سیلری پیکج سول ہاسپٹل کے مقابلے میں 14000روپے کم ہے ۔یہ کافی بڑا گیپ ہے ایک سپشلسٹ اور ایم۔بی۔بی۔ایس کے درمیان ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سب لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ یہاں وہ سب ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے اور وہ نہیں ہوتا ۔یہ ایک المیہ ہے مگر کون سوچے گا؟ہمیں اتنی فرصت کہاں میں اور بھی بہت کچھ جاننا چاہتی تھی مگر ایک ایمرجنسی آ گئی اور ڈاکٹر صاحب مجھے سوچوں کے گرداب میں چھوڑ کر چل دئیے۔
اور میں انگشت بداماں سوچتی رہ گئی کیا ہمارے ملک میں تعلیم کا اتنا کال ہے کہ خاکروب ایک ڈسپنسر کی جگہ لے لے ؟کیا دل کے مریضوں کا یہی حق ہے کہ وہ ایسے عملے کے ہتھے چڑھ جائیں ۔ھمارے ملک کیے نظم کی کارکردگی یہی ہے کہ سفارش ہو تو وہ کسی بھی ان کوالیفائیڈ بندے کو اعلی سیٹ پہ بٹھا دیا جائے ۔اس کی اہم وجہ ہمارا ایسے امیدواران کا چنائو ہے جن کو خود علم نہیں کہ کون سا محکمہ کس اہمیت کا متقاضی ہے۔
Metro Bus
میں سلام کرتی ہوں ہاسپٹل کے ms صاحب کو جو ان کڑے حالات میں بھی مریضوں سے مخلص ہیں مگر ان کے پر بھی بندھے ہیں اگر وہ اپنی گزارشات لے کر محکمہ صحت تک جاتے ہیں تو ،اندر میٹنگ چل رہی ہے،کے نام پہ انہیں گھنٹوں ذلیل کیا جاتا ہے جبکہ اندر گپیں چل رہی ہوتیں ہیں جب ہم اس طظن کے ساتھ مخلص ہی نہیں تو کیسی تبدیلی ؟کہاں کی تبدیلی۔
میٹرو بس کیا چلی گویا دنیا فتح کر لی مگر یہ نہیں سوچا کہ بس میں سفر کرنے کیلئیے رقم درکار ہے جبکہ پاکستانی قوم پھٹے جوتے پہنے ایسی بدحال قوم ہے جس ے لوڈشیڈنگ ،مہنگائی ،ناقص سہولیات صحت،اور دہشتگردی جیسے مسائل کا سامنہ ہے ۔مجھے آج شدت سے احساس ہوا کہ کوئی ملک و قوم سے مخلص نہیں نہ سیاستدان نہ صحافی نہ حکمران ۔
ہے کوئی جو اس قوم کو سمجھائے کہ اپنی آنکھیں کھولو اور خود پر مسلط عذاب کو پھر سے مسلط نہ ہونے دو ۔ووٹ صف اس کو دو جو وطن کا مخلص ہو کرسی اور وزارت کا نہیں ۔مت آئو ان تقریروں ،دعووںاور منشوروں کے دھوکوں میں، یہ ایسے دبیز دھوکے ہیں کہ آپ ان کی گہرائی نہیں پا سکتے۔قوم کی تقدیر بدلنے کیلئیے آپ کو ایک طاقت ہونا ہوگا تب تبدیلی ممکن ہے ورنہ تو۔۔۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا ۔ تحریر : فوزیہ عفت