تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا ویلن ٹائن ڈے محبت کے نام پر دھوکہ ہے۔ اس محبت بھرے دھوکے میں ہرعمر کے مرد و خواتین شعوری اور لا شعوری طور پر غوطہ کھا رہے ہیں ، کچھ مالی فوائد کے لئے قوم کے معصوم پھولوں اور کلیوں کو کھلنے سے قبل ہی دنیا اور آخرت تباہ و برباد کر وارے ہیں ۔ایسے لوگ چند ٹکوں کی خاطر جو پھول تحائف اور ویلن ٹائن ڈے کارڈ فروخت کرنے والے ہیں وہ ” ویلن ٹائن ڈے ، کو صرف بزنس پوائنٹ آف وئیو سے دیکھتے ہیں، کاش وہ سب کچھ تجارت کو سمجھنے کی بجائے اللہ اور اللہ پاک کے رسول ۖ کی تعلیمات سمجھتے اور کچھ ہوس کی آگ کو بھڑکانے کے لئے ایسے مواقعوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے جلتی پر تیل کاکام کرنے کے لئے ” عشق و محبت ” کے نام سے فلمیں اور ڈرامے بنا کرکچے اور معصوم دماغوں پر مسلط کر کے شیطان کو خوش کر تے ہیں ، کیا کبھی کسی نے سوچا ہے ہر سال کتنے گھر اجڑتے ہیں وہ بھی محبت کے دن کے نا م پر یعنی ویلن ٹائن ڈے کی وجہ سے، کچھ تو اس دلدل میں اس قدر پھنس جاتے ہیں کہ” وہ مرنا چاہتے ہیں مگر موت بھی ان سے روٹھ جاتی ہے”۔
مسلمان معاشرے میں ایک ویلن ٹائن ڈے کا اہتمام کرنا قوم کو بے موت مارنا جیسے ہیں ۔ ہم مسلمان ہیں ، اللہ پاک کا فرمان عالی شان ہے قرآن پاک میں (اے نبیۖ)! مومن مردوں سے کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں پست رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے۔اور مومن عورتوں سے بھی کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو از خود ظاہر ہو جائے۔ اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں اور اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے جو ان کے خاوند، باپ، خاوند کے باپ (سسر) بیٹے، اپنے شوہروں کے بیٹے (سوتیلے بیٹے) بھائی، بھتیجے، بھانجے، میل جول والی عورتیں، کنیزیں یا جن کی وہ مالک ہوں، اور اپنے خادم مرد جو عورتوں کی حاجت نہ رکھتے ہوں اور ایسے لڑکے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ اور اپنے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہوجائے اور اے ایمان والو! تم سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو توقع ہے کہ تم کامیاب ہوجاؤ گے۔”(النور ٤٢: آیات ٠٣ـ١٣ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہیں ، یہ سچ ہے کہ شیطان ہی کی وجہ سے انسان افضل المخلوقات ہو کر بھی حوانیت کو بھی مات دے رہا ہے۔ اسی حوانیت کی ایک کڑی کا نام ” ویلن ٹائن دے ” ہے۔
چودہ فروری کا یہ ‘یومِ محبت’ سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کے بارے میں محمد عطاء اللہ صدیقی رقم طراز ہیں:”اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ٤١ فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت’ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہورہے تھے۔”
Valentine Day Ban
میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں ویلنٹائنز ڈے منانے پر سخت پابندی عائد ہے اور اس دن کے آنے سے قبل ہی ریاست میں سرخ گلابوں کی فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے تاکہ جو لوگ چوری چھپے اس پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہیں انہیں پھول میسرنہ آ سکیں۔ رپورٹ کے مطابق ویلنٹائنز ڈے دنیا بھر میں مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ جاپان میں اس دن کسی خاتون کو کوئی تحفہ نہیں ملتا بلکہ اس روز صرف مردوں کو تحائف ملتے ہیں جو ان کی بیویاں یا محبوبائیں دیتی ہیں۔ اس کے برعکس وائٹ ڈے ایک ایسا تہوار ہے جس پر مردوں کو تحائف نہیں ملتے بلکہ وہ خواتین کو تحفے دیتے ہیں۔فن لینڈ اور ایستونیا میں یہ دن دوستی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس کا رومانویت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔(ج،ا)بغیر سوچے سمجھے مغرب کی اندھی تقلید نے ہمارے دل و دماغ کو مفلوج کر دیا ہے۔ ایک ایسا شیطانی کام جس نے ہمارے عقل کو زنگ آلود کر کے رکھ دیا ہے ۔ کچھ سالوں سے سے ویلن ٹائن ڈے جیسے مغرب کے تہواروں کو مسلم ممالک میں جس جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، اس سے ہماری ثقافتی اقدار ، پہچان ، دو وقومی نظریہ ، سخت خطرہ ہے۔ بالخصوص ”ویلن ٹائن ڈے” کے موقع پر آوارگی، اوباشی، بے حیائی، بے ہودگی اور فحاشی جس طرح اپنے عروج پر ہوی ہے، وہ ہماری اخلاقی اور تہذیبی اقدار و روایات کے لیے کسی بھی طرح کسی بھی شکل میں کسی بھی حال میں بھی موت سے کم نہیں۔ مغربی تہذیب کی پیروی میں سب سے آگے ہونے کو ہم اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں کسی کو بھی اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ہیں۔ مغرب کی پیروی میں کیوں ہم اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے۔
زندہ مثال ” ویلن ٹائن ڈے ” ہے یہ نا سور جہاں سے پھوٹا تھا ہم ان سے بھی دو قدم آگئے نکل گئے ہیں ، ہونا تو یہ چاہئے کہ ویلن ٹائن ڈے ے موقع پر اس شیطانی شکنجہ سے بچنے کے لئے نوافل ، نماز اور تلاوت کی طرف رجوع کرتے ۔ افسوس جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کچھ لوگوں نے ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر ” شراب و شباب ” آزادانہ میل ملاپ ، رقص و سرور کی محافلیں،سیر سپارٹ، وغیرہ کا پروگرام بنائے ہوئے ہیں ایسے پروگرام جس رنگ جس شکل جس صورت میں بھی ہوں مقصد سب کا ایک ہی ہے کہ بغیر شادی کے شادی جیسے تلاقات ۔ اور ایسی کام کے لئے شیطان نے اپنے چیلوں کا کام بھی ہم کو سونپا ہوا ہے ۔ بحثیت مسلمان ہماری زمہ داری ہے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے جاننے والوں ، کو اس موزی مرض کے قریب بھی نہ ہونے دیا جائے ، اساتذہ کرام طلبہ پر نگرانی کریں والدین بچوں کو تنہا نہ چھوڑیں۔
آخر میں ایمان کی تازگی کے ئے ۔۔ اللہ پاک کے فرمان عالی شان جو الہامی کتاب مبین میں اپنے پیارے محبوب جناب ِ حضرت محمدۖ کے وسیلے سے ارشاد ہوا اے بنی آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا کر دے جیسا کہ اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان سے ان کے لباس اتروا دیئے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں انہیں دکھلا دے۔ وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا سرپرست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔”، (الاعراف 22:7) یا اللہ ہمیں ایمان کی دولت سے مالا مال کر دے اور امُت محمدیہ کو شیطانی شکنجہ یعنی ویلن ٹائن ڈے کے شر سے محفوظ فرما آمین