مقبوضہ کشمیر میں پچھلے تین دن سے پر تشدد احتجاجی مظاہروںکا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کی آٹھ لاکھ فوج، سی آر پی ایف اوردیگر نیم فوجی دستے ظلم وستم کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ جمعہ ، ہفتہ اور اتوار کو بھارتی فوج اورمظاہرین کے مابین ہونے والی جھڑپوںمیں بیسیوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔اتوار کو حریت کانفرنس (گ) اور حریت کانفرنس (ع) کی اپیل پر پورے کشمیر میں زبردست ہڑتال کی گئی اور کاروبار زندگی مکمل طور پر معطل رہا تو تو سوموار کو جے کے ایل ایف کے سربراہ محمد یٰسین ملک کی جانب سے ”سری نگر لال چوک چلو ” کی کال دی گئی ۔ یہ احتجاجی مظاہرے بانڈی پورہ کے علاقہ نائیدکھئے میں پر امن احتجاجی مظاہرین پربھارتی فوج کی فائرنگ کے نتیجہ میں گیارھویں جماعت کے ایک طالب علم کی شہادت پر شروع ہو ئے ہیں۔فرحت عباس نامی طالب علم کا جرم یہ تھا کہ وہ کالج سے واپسی پرہائیر سیکنڈری سکول کے قریب سے گزرنے والے ایک جلوس کو دیکھ کر کھڑا ہو گیاجس کے شرکاء اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔
اس کے گلے میں بیگ تھا اور وہ گھر جانے کیلئے تیار تھا کہ اچانک بھارتی فوجیوں نے اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے ایک گولی فرحت کو بھی لگی اور وہ موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گیا۔ طالب علم کی شہادت کا واقعہ ہونے کی دیر تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج شروع کر دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بھارتی فوج اپنے اہلکاروں کی دہشت گردی پر شرمندہ ہوتے لیکن انہوںنے نہتے مظاہرین پر بھی فائرنگ کر دی جس سے سات مزید افراد شدید زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں احتجاجی مظاہرین نے مشتعل ہو کر سی آر پی ایف کے ایک کیمپ پر دھاوا بول دیا، فوج کے ایک بینکر کو نذر آتش کیا اوربھارتی فورسز پر شدید پتھرائو کیا گیا۔ رات دیر گئے فرحت کی لاش اس کے اہل خانہ کے حوالے کی گئی۔ جب اس کی میت اس کے گھر پہنچی تو ہر طرف کہرام مچ گیا اور کشمیری ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے۔ اس کی نماز جنازہ میں ہزاروں کشمیریوں نے شرکت کی۔
Kashmir Student Protest
مذکورہ طالب علم کی شہادت کے بعد ہفتہ کو بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور اتوار کو تاریخی ہڑتال کی گئی جس سے معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے۔ زبردست احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر بھارتی فوج نے بانڈی پورہ، حاجن، تائیدکھئے اور شاہ گنڈ میں کرفیو لگائے رکھا تاہم ہزاروں کشمیری کرفیو توڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاجی مظاہرے کئے۔ پٹن اور پلہالن میں بھی بھارتی فوج نے غیر اعلانیہ کرفیو لگائے رکھا اور بھاری فورسز تعینات کی گئیں۔احتجاجی مظاہرین پر قابو پانے کیلئے بھارتی فورسز کی طرف سے بدترین لاٹھی چارج کیاگیااور آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے جن میں کئی افراد زخمی ہو گئے جنہیں ہسپتال داخل کروا دیا گیا ہے۔
بھارتی فورسز کی طرف سے لوگوں کو گھروں سے نکلنے سے روکنے کیلئے لائوڈ سپیکروں کے ذریعے اعلانات کروائے جا رہے ہیں۔سمبل ،نائد کھے ،پلہالن، ترال، بارہمولہ اور سوپور میں بھارتی فورسز پر پتھرائو کے واقعات پیش آئے ہیں۔ کٹھ پتلی پولیس نے ایک بار پھر ماضی کی طرح مظاہرین پر پتھرائو کا مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجرموں کو قانون کے کٹہرے میںکون کھڑا کرے گا ۔اس وقت مقبوضہ کشمیر میں صورتحال یہ ہے کہ بھارتی فورسز کی جانب سے لوگوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جارہی جسکی وجہ سے کشمیری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔صفاکدل ، خانیار ،نوہٹہ، مہاراج گنج اور رعناواری میں دفعہ 144نافذ کر دی گئی ہے اور سڑکوں چوراہوں وپلوں پر پولیس اور سی آر پی ایف کی بھاری نفری تعینات کر کے سڑکوں کو خاردار تار وںکے ذریعے سیل کر دیاگیاہے۔ بانڈی پورہ اور اس کے ساتھ ساتھ شمالی کشمیر کے دیگر کئی علاقوں میں بھی طالب علم کی شہادت کے خلاف ممکنہ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر کرفیو جیسی پابندیاں عائد رہیں جن میں پٹن ، پلہالن ، سوپوراور بارہمولہ قابل ذکر ہیں۔فرحت عباس کے بارے میں بتایاجاتا ہے کہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا جس کی شہادت سے ان کے مستقبل کا واحد سہارا چھن گیا ہے۔
ادھر نائد کھے میں طالب علم کی شہادت کے بعدممکنہ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظربھارتی فوج نے حریت قائدین کی نظر بندیوں اور سرگرم کارکنان کی زبردستی گھروںسے اٹھا کر جیلوں میں ڈالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میرواعظ عمر فاروق ،جے کے ایل ایف چیئرمین محمد یٰسین ملک، شبیر احمد شاہ،محمد اشرف صحرائی اورنعیم احمد خان سمیت کئی سرکردہ رہنمائوں کوحراست میں لیکر نظر بند کیا گیاہے۔ بھارتی فورسز، سی آر پی ایف اور دیگر نیم فوجی دستے جموں کشمیر میں نوجوانوں کو ایک ایک کرکے منصوبہ بندی کے تحت موت کے گھاٹ اْتار رہے ہیں اور نسل کْشی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑے جارہے ہیں۔بھارت سرکار اگرسمجھتی ہے کہ وہ اس طرح کے مذموم ہتھکنڈوں سے مظلوم کشمیریوں کا جذبہ حریت سرد کرنے میں کامیاب ہو جائے گی تو یہ ان کی بھول ہے۔
ایسے واقعات کا تسلسل سنگین نتائج پر منتج ہوگا اور بھارت سرکار کسی صورت مقبوضہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار نہیں رکھ سکے گی۔بھارتی فورسز کی یہ عادت بن چکی ہے کہ پہلے وہ نہتے کشمیریوں کو گولیوں کا نشانہ بناتی ہے اور پھر ردعمل میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر بدترین تشدد اور نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کرکے مظلوں کے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی فوج زیادہ عرصے تک کشمیریوں کا لہوبہانے سے باز نہیں رہ سکتی اور اپنی اسی روش سے مجبور ہوکرآئے دن کشمیری نوجوانوںکا لہو بہا کرپوری کشمیری قوم کو اذیت میں مبتلا کردیاجاتا ہے۔حالیہ دنوںمیں بھی یہی کچھ کیا گیا ہے۔ افسپا کے غیر انسانی ہتھیار سے لیس بھارتی فورسز کی انسانیت کش حرکتیں اور باوردی دہشت گردی کا سلسلہ زوروشور سے جاری ہے۔جموں کشمیر کے عوام 1947ء سے بھارتی فورسزکے مظالم برداشت کر رہے ہیں لیکن جو کھیل ان دنوںمیں کھیلے جارہے ہیں ایسی مثالیں ماضی میں بہت کم ملتی ہیں۔
حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں، جے کے ایل ایف، فریڈم پارٹی آف جموںکشمیر، دختران ملت، مسلم لیگ، جمعیت اہلحدیث مقبوضہ کشمیر اور دیگر جماعتوںنے گیارھویںجماعت کے طالب علم کے قتل کی شدید مذمت کی ہے اور مذکورہ واقعہ کی کسی غیر جانبدار عالمی ادارے سے اس کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا مطالبہ اگر چہ درست ہے لیکن افسوسنا ک امر یہ ہے کہ مشرقی تیمور اور سوڈان کا مسئلہ ہو تو یہ ادارے فی الفور حرکت میں آجاتے ہیں مگر کشمیری و فلسطینی مسلمانوں کا جتنا چاہے مرضی خون بہتا رہا ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
Kashmiris
ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان سمیت پوری مسلم امہ مظلوم کشمیریوں کی کھل کر مدد و حمایت کرے۔خاص طور پر پاکستان جس کے ساتھ الحاق کیلئے کشمیری اپنا خون بہا رہے ہیں اور سری نگر کے لالچوک میں کھڑے ہو کر یہ نعرہ بلند کرتے ہیں کہ اسلام کے رشتہ سے ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔ تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کو ثمر آور بنانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادارکریں ،بھارت کی ریاستی دہشت گردی بے نقاب کرنے کیلئے سفارتی سطح پر زوردار مہم چلائی جائے اور بھارت سرکار سے دوستی و تجارت اور بجلی خریدنے کے معاہدے کر کے لاکھوں مسلمانوں کے قاتل کا اعتماد بحال کرنے کی بجائے اپنے کشمیری بھائیوں کے اعتماد کو بحال کیاجائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس حوالہ سے حکومت پاکستان کو کسی قسم کے دبائو کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔