تحریر : نمرہ نمی 4 فروری ١٩٤٨ کو برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کرنیوالا ملک سری لنکا جس میں بسنے والوں کی اکژ یت سناہلی ہے اور اقلیتی گروپس میں سب سے بڑا گروہ ہندو سری لنکن تاملز کا تھا جو دینا بھر میں تامل ٹائیگرز کے نا م سے پہچا نے جاتے ہیں ۔سناہلی ملک کے کے جنوب مغرب اور سری لنکن تامل شمال مشرق کے جزیروں پر رھائش پذیرتھے دونوں گروہ نہ صرف لسانی و جغرافیائی بلکہ مذہبی و سیاسی نقطہ نظرمیں بھی ایک دوسرے سے اختلاف کے حامل تھے۔سری لنکا کی معیشت وسیاست پر ہمیشہ سناہلی گروہ کو برتری حاصل رہی اور اس برتری کی بنا پر سناہلی گروہ کے مفادات کے تحفظ کیلئے مختلف اقدامات اٹھائے جاتے رہے اور اسطرح سری لنکن تامل میں دن بدن احساس محرومی بڑھتا رھا اور آہستہ آہستہ دونوں گروہوں کے درمیاں یہ خلیج اتنی بڑھ گئی کہ اس نے تشدد پسندی کا روپ اختیار کر لیا ۔سری لنکن حکومت نے اس پر قابو پا نے کیلئے مذاکرات سمیت تمام آپشنز استعمال کئے لیکن ناکام رہی اور پھر تشدد و بربریت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ ایک سول وار کا روپ اختیار کر گیا اور یہ جنگ تقریبا 67سال کے طویل عرصہ پر محیط رہی اورآخر کار2009 میں اسکا خاتمہ ہوا۔
اس جنگ میں تقریبا 63 ہزار لوگ ما رے گئے ایک رپورٹ کے مطابق ان کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔تقریبا سات لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور تقریبا ایک لاکھ بہتر ہزار لوگوں نے مہاجرین کیمپوں میں پناہ لی۔یہ تمام تفصیلات بیان کرنیکا مقصد یہ تھا کہ ہمارے ملک میں جب بھی تحریک طالبان کیخلاف کاروائی کرنے کی تجویز دی جاتی ہے تو عمومی طور پر تامل ٹائیگر ز کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ سب سے پہلا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ کیا تحریک طالبان پاکستان اور تامل ٹایئگرز کا موازنہ کرنا مناسب ہے جبکہ ان میںایک بنیادی فرق موجود ہے کہ تحریک طالبان ایک مائنڈ سیٹ ہے اور یہ جنگ ایک نظریا تی جنگ ہے جبکہ تامل ٹایئگرز کی جنگ ایک سماجی و طبقاتی جنگ تھی اور دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر تحریک طالبان کے خلاف یہ جنگ طوالت اختیار کر جاتی ہے تو کیا پاکستان کی ملکی قیاد ت سری لنکا کی سیاسی قیادت کیطرح اس طویل جنگ کے دوران ملکی معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے میں کامیاب ہو پائے گی۔
پاکستانی قیادت کو یہ جنگ نہ صرف دفاعی بلکہ معاشی محاذ پر بھی لڑنا ہوگی اور بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کیلئے بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ یاد رہے کہ ١٩٨٣سے پہلے سری لنکا اپنے جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد دفاع پر خرچ کرتا تھا جو بڑھتے بڑھتے ١٩٩٦ میں ٦فی صد تک پہنچ گیا ۔سری لنکن حکومت نے نہ صرف ملکی دفاعی اخراجات پورے کئے بلکہ عوامی سطح پر کئی سوشل ویلفیر پراجیکٹس کا آغاز کرکے عوام کو مفت تعلیم و صحت کی سہولیات بہم پہنچائیں یہی وجہ ہے کہ ٢٠٠٥میں سری لنکا تمام ساوئتھ ایشین ممالک میں بلند ترین شرح خواندگی،شرح متوقع عمر اور شرح جی ڈی پی فی کس کا حامل تھا۔
Terrorism
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دہشت گردی کے عفریت نے ملک کی معاشی ترقی کے عمل کو متاثر کیا ہے اور امن عامہ کے حوالے سے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان چھوڑا ہے لیکن کیا مسائل کے حل کیلئے جنگ ہی واحد راستہ ہے۔ جنگ بھی محبت جیسی ہوتی ہے آغاز کرنا آسان ،اختتام بہت مشکل اوراثرات ناقابل بیان۔ جوزف ولسن نے کہا تھا کہ جنگ جمہوریت کیلئے آخری آپشن ہوتا ہے لیکن اس سب کا ہر گز یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ ریاست جنگ کے خوف سے امن عامہ جیسے بنیادی فرض سے پہلو تہی برتنے لگے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونکنا ایک قابل تعریف عمل نہیں ہے لیکن ملکی سلامتی کو در پیش خطرات سے نمٹنا اور ان کا مناسب حل تلاش کرنا بھی حکمرانوں کے فرائض منصبی میں شامل ہے جنگ مسائل کا حل نہیں لیکن خو ا ہئش امن میں اس حد تک آ گے بڑھ جانا کہ اسے ریاست کی کمزوری متصور کیا جانے لگے بھی قابل ستائش نہیں ہے۔
پاکستانی قوم اس وقت دو گروہوں میں منقسم ہے ایک وہ مذہبی وسیاسی گروہ ہے جو مذہب و شریعت کی آڑ میں دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہے اور دوسرا وہ گروہ ہے جو مذہبیت پسندی کو جنون گردانتے ہوے آزادی اظہار رائے ،امن انسانی اور ریاست کے وجود کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دے رہا ہے ۔بدقسمتی سے یہ دونوں گروہ خود کو راہ راست پر سمجھتے ہوئے دو انتہائوں کی نماہئندگی کر رہے ہیں لیکن وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم نظریاتی و سیاسی ،اختلاف کو بھلا کر اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی سلامتی کیلئے ایک مثبت کردار اداکریں۔ بڑے مسائل ہمیشہ بڑے فیصلوں کے متقاضی ہوتے ہیںاور بڑے فیصلے ہمیشہ قربانی مانگتے ہیں۔
جذبہ ایثار سے عاری ہو کر نہ تو کوئی بڑا انسان بن سکتا ہے اور نا ہی عظیم قائد سو ہماری سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی و سیاسی مفادات اور باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک و قوم کی بہتری کی اجتماعی سوچ کے ساتھ آگے بڑھے اور تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے کر مسئلہ دہشت گردی کا آبرو مندانہ حل نکالے۔ملکی سیاسی قیادت سب سے پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کرے اور پھر ان متعین کردہ تر جیحات کو مد نظر ر کھتے ہوئے فیصلے لئے جائیں کیونکہ ترجیحات کا واضح تعین ہی کنفیوژن کو خود اعتماد ی میںبدل سکتا ہے اور یاد رہے کہ مذاکرات کی میز ہو یا میدان جنگ ،بقول نپولین بونا پارٹ جیت اسی کی ہوتی ہے جو جیت کے یقین کے ساتھ میدان میں اترتا ہے۔