اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ملازمت سے برطرفی بدلتی سیاسی صف بندی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔
قانونی حلقوں میں بڑا سوال یہ ہے کہ جج کی برطرفی کے بعد اب نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں کا کیا بنے گا؟ مسلم لیگ نواز کے حامیوں کا خیال ہے کہ کیس میں صرف جج ہی برطرف نہیں ہوا بلکہ اس کے سنائے جانے والے فیصلے بھی برطرف ہو گئے ہیں ۔
تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جج کی جانبداری ثابت ہونے پر العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کالعدم ہوگی تو دوسری طرف اسی جج کی طرف سے فلیگ شپ ریفرینس میں نواز شریف کو بری کئے جانے والا فیصلہ بھی باقی نہیں رہے گا۔
اہم سوال یہ بھی ہے کہ جج کو تو گھر بھیج دیا گیا لیکن اس اسکینڈل کے پس پردہ کرداروں کو کون بے نقاب کرے گا؟ انہیں کوئی سزا ملے گی؟ مسلم لیگ نواز کہتی ہے کہ جج پر دباؤ ڈال کر اسے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور کیا گیا جبکہ حکومت کا الزام ہے ہے کہ مسلم لیگ نون نے جج کو بلیک میل کرکے مرضی کا فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان کے عدالتی نظام میں مدخلت کوئی نئی بات نہیں۔ طاقتور قوتیں ہوں یا خود مسلم لیگ نواز، کسی کا بھی کردار مثالی نہیں رہا ہے۔ اس ویڈیو سکینڈل نے بھی انصاف کے ایوانوں کے اندر اور باہر مختلف سٹیک ہولڈرز کی مداخلت کو بے نقاب کیا ہے۔
اس اسکینڈل نے نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ایک خاتون کے ساتھ منظر عام پر آنے والی ویڈیو کی یاد بھی دلا دی۔ یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ اُس ویڈیو کی تحقیقات کہاں گئیں اور اس پر کوئی ایکشن کیوں نہیں ہوا؟
جج ارشد ملک کی برطرفی کی ٹائمنگ بھی اہم ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عمران حکومت شدید مشکلات کا شکار ہے اور ملک میں بظاہر نئی سیاسی صف بندی کی باتیں چل رہی ہیں۔
اتحادیوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے فاصلے، پی ٹی آئی رہنماوں کے باہمی اختلافات، مہنگائی کنٹرول کرنے میں حکومتی ناکامی، معیشت کی ابتر صورتحال ، آٹے ، چینی اور کورونا بحرانوں کی وجہ سے شدید مسائل میں گھری ہوئی عمران حکومت کو ہر طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
قومی اسمبلی میں اب متحدہ اپوزیشن کی طرف سے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں جاری ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اگلے سال کے شروع میں سینٹ کے انتخابات تک بر صورت میں برسر اقتدار رہنے کی خواہشمند ہے۔ لیکن اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ اگر اس حکومت کو نہ ہٹایا گیا تو وہ سینٹ میں اکثریت حاصل کرکے ملک میں مزید خرابیاں کرے گی۔
ایسے میں مسلم لیگ نواز کے رہنما رانا ثنا اللہ نے قومی اسمبلی میں پانچ دیگر ویڈیوز کا جو ذکر کیا ہے، سوال یہ کہ وہ کس کے پاس ہیں اور کب استعمال ہوں گی۔ ابھی مریم نواز کی طرف سے اعلان کردہ مزید ویڈیوز بھی سامنے آنا باقی ہے۔
ساتھ ہی یہ تاثر ہے کہ بعض قوتوں کے پاس ایک ایسی ویڈیو بھی موجود ہے جو ضرورت پڑھنے پر پاکستان میں مائنس ون کے تحت ان ہاوس تبدیلی کے لیے بھی مدد دے سکتی ہے۔